Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے وزیر پر قتل کا الزام

مقتول کے بھائی کا الزام ہے کہ صوبائی وزیر کے خلاف لکھنے پر انور کو قتل کیا گیا (فوٹو: سوشل میڈیا)
بلوچستان کے ضلع بارکھان میں دو روز قبل قتل ہونے والے سماجی کارکن انور جان کھیتران کے قتل کا مقدمہ صوبائی وزیر خوراک و بہبود آبادی عبدالرحمان کھیتران کے محافظوں کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔ 
مقتول کے بھائی کا الزام ہے کہ صوبائی وزیر بھی قتل میں ملوث ہیں جنہوں نے مظالم اور کرپشن کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھنے پر انور کو قتل کرایا، تاہم عبدالرحمان کھیتران نے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
وزیر خوراک و بہبود آبادی بلوچستان عبدالرحمان کھیتران نے کراچی سے ٹیلی فون پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے الزامات کی تردید کی ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ ان کی انور جان یا ان کے خاندان سے کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی قتل کے اس واقعے سے ان کا یا ان کے کسی محافظ کا کوئی تعلق ہے۔ 'جنہیں نامزد کیا گیا ہے وہ میرے محافظ نہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'انور جان صحافی نہیں بلکہ ایک قوم پرست پارٹی کے کارکن تھے اور وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بلیک میلنگ کرتے تھے۔'
لیویز کے مطابق کوئٹہ سے تقریباً پانچ سو کلومیٹر دور پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ملحقہ بارکھان میں صحافی انور جان کے قتل کا واقعہ 23 جولائی کی شام کو پیش آیا تھا۔ انہیں موٹرسائیکل پر گھر جاتے ہوئے ناہڑ کوٹ کے مقام پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا اور فرار ہوگئے۔
لیویز کا کہنا ہے کہ واقعے کا مقدمہ لیویز تھانہ ناہڑ کوٹ میں مقتول کے بھائی اکبرخان کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ہے جس میں نادر خان اور آدم خان نامی افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
مدعی کا دعویٰ ہے کہ واقعے میں ملوث دونوں افراد صوبائی وزیر عبدالرحمان کے محافظ ہیں جس کی بنیاد پر مدعی نے مقدمے میں صوبائی وزیرعبدالرحمان کھیتران کو بھی نامزد کرتے ہوئے لیویز کو بیان دیا ہے کہ ان کے بھائی کے قتل کی وجہ صحافت بنی ہے۔ صوبائی وزیر انور کھیتران نے انہیں صحافت سے باز آنے کا کہا تھا۔
بارکھان کے مقامی صحافی رزاق کھیتران کے مطابق انور کھیتران پریس کلب کے رکن نہیں تھے اور باقاعدہ صحافت کے بجائے سوشل میڈیا پر سرگرم تھے۔
مقتول کے چھوٹے بھائی غلام سرور نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ انور جان کھیتران سماجی کارکن تھے اور صحافت سے بھی وابستہ تھے۔ وہ پنجاب کے ایک اخبار روزنامہ 'نوید پاکستان' کے ساتھ کام کرتے تھے۔ انور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ْفیس بک ٗپر کافی متحرک تھے اور عوامی مسائل اور علاقے میں طاقتور قبائلی سرداروں کے مظالم کے خلاف کھل کر لکھتے تھے۔ 
غلام سرور نے الزام لگایا کہ انہیں شک نہیں بلکہ یقین ہے کہ انور جان کھیتران کا قتل صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے کہنے پر ان کے کارندوں نے کیا ہے۔ 'دو تین ماہ قبل سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے کارندوں نے ٹیلی فون کر کے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف لکھنے پر بھائی کو دھمکیاں دی تھیں۔'
انہوں نے لیویز پر بھی جانب داری کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ لیویز افسران نے صوبائی وزیر کا نام مقدمے میں شامل نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور تاخیر سے مقدمے کا اندراج کیا۔ غلام سرور نے بتایا کہ بھائی کے قتل کے بعد ہمیں بھی خاموش نہ ہونے پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ  صوبائی وزیر کو گرفتار کرکے مقدمے میں شامل تفتیش کیا جائے۔
صوبائی وزیر اطلاعات و خزانہ ظہور بلیدی نے انور کھیتران کے قتل پر مقتول کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ سینیئر صحافی حامد میر، سلیم صافی اور بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن رکن ثنا بلوچ  نے بھی سوشل میڈیا پر رد عمل دیا ہے۔ حامد میر نے لکھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان بتائیں کہ انور کھیتران کے قاتل ابھی تک گرفتارکیوں نہیں ہوئے؟ 
 
فریڈم نیٹ ورک پاکستان نے سٹیزن جرنلسٹ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ انور جان کھیتران کے قتل پر ٹویٹ کی کہ بلوچستان صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے خطرناک جگہ ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
انور جان کھیتران کے دوست ماسٹر احمد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ انور جان فعال سماجی کارکن تھے وہ انسانی خدمت اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ موت سے ایک روز قبل بھی انہوں نے بارکھان میں فری آئی میڈیکل کیمپ لگایا جس میں ستر افراد کے آنکھوں کے مفت آپریشن کیے گئے۔
ماسٹر احمد خان کے مطابق انور جان کھیتران سرداری نظام کے خلاف تھے۔ وہ سرداروں کے خلاف کھل کر بولتے تھے۔ لوگوں نے انہیں سمجھایا بھی کہ جو ہو رہا ہے ہونے دیں لیکن وہ کہتے تھے خاموش نہیں رہ سکتا۔
خیال رہے کہ عبدالرحمان کھیتران بلوچوں کے کھیتران قبیلے کے سردار ہیں۔ وہ 2018 میں بارکھان سے بلوچستان اسمبلی کے تیسری بار رکن منتخب ہوئے اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو کر صوبائی وزیر بنے۔
انہیں اس سے قبل بھی قتل اور اغوا سمیت کئی دیگر سنگین مقدمات کا سامنا رہا۔ جنوری 2014 میں قتل، خواتین اور بچوں کو نجی جیل میں قید رکھنے، پولیس اہلکاروں پر تشدد اور اسلحہ برآمد ہونے کے الزام میں عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ساڑھے پانچ سال قید رہے۔ جون 2018 میں چاروں مقدمات میں عدالت سے بریت کے بعد انہیں رہائی ملی۔ 

شیئر: