Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک سفارتکاروں کی تعیناتیاں ہائی کورٹ میں چیلینج

’ایک افسر پوری سروس امریکہ میں اور دوسرا افریقہ میں گزار دے یہ مناسب نہیں ہے۔‘ (فوٹو: عرب نیوز)
پاکستان کی وزارت خارجہ کے اعلی افسران نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے حال ہی میں سفارت کاروں کی بیرون ملک ہونے والی تعیناتیوں کو غیر قانونی، ناانصافی پر مبنی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انھیں کالعدم قرار دیے جانے کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا ہے کہ ایک افسر پوری سروس امریکہ میں اور دوسرا افریقہ میں گزار دے یہ مناسب نہیں ہے۔
اسلام ۤباد ہائی کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ 

 

تاہم ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دفتر خارجہ کے بیرون ممالک تبادلوں میں میرٹ کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیر ملکی تبادلوں کی پالیسی ایک گائیڈ لائن ہے۔‘
ان کے مطابق ’تبادلے کی پالیسی کا مقصد وزارت خارجہ کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ پالیسی شفاف اور انصاف پر مبنی نظام تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے تاکہ افسران کو برابری کے مواقع ملیں اور ان کی استعداد کو خارجہ پالیسی اور وزارت کے مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’افسران کے میرٹ پر تبادلے وزارت اور مشن کے لیے ضروری ہیں۔ غیر ملکی تبادلے فرد نہیں بلکہ ایک میکنزم کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے مشاوررت کی جاتی ہے۔ پالیسی کے تحت کوشش کی جاتی ہے کہ افسران کا ان کی ترجیح کے مقام تبادلہ کیا جائے۔‘
کابل میں اپنی مدت پوری کرنے والے پاکستانی سفیر زاہد نصراللہ اور وزارت خارجہ میں تعینات ڈائریکٹر پبلک ڈپلومیسی ماجد خان لودھی کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ سے متعلق  2015  کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعیناتیاں اور تبادلے کیے گئے ہیں جن میں پٹیشنرز کی تعیناتیاں بھی شامل ہیں۔
ماجد خان کا تبادلہ بھی ہیڈ کوارٹر سے استنبول کیا گیا تاہم انھوں نے اپنی نئی ذمہ داری سنبھالنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایئرپورٹ اور قونصل خانے کے درمیان مسلسل سفر میں مصروف نہیں ہونا چاہتے۔

ترجمان نے کہا کہ ’افسران کے میرٹ پر تبادلے وزارت اور مشن کے لیے ضروری ہیں (فوٹو: وزارت خارجہ)

انھوں نے وزارت خارجہ کی ایڈمنسٹریشن اور سیکرٹری خارجہ کے نام تین خطوط لکھے جن میں سے پہلے خط میں انھوں نے استنبول میں جوائننگ دینے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ’وزارت خارجہ میں 13 سالہ سروس کے دوران صرف ایک بار جنیوا میں تعینات کیا گیا۔ سات سال سے ہیڈکوارٹر میں موجود ہوں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’میرا انکار مجاز اتھارٹی کے اختیار کو چیلنج کرنے کے لیے نہیں بلکہ ’تبادلوں اور تعیناتیوں سے متعلق پالیسی کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرنا ہے۔‘
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ دفتر خارجہ میں افسران کی بیرون ملک تعیناتیاں کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ایک افسر پوری سروس کے دوران امریکہ اور دوسرا ساری سروس کے دوران افریقہ میں نہ گزار دے۔ اسی مقصد کے لیے 2015 میں پالیسی بنائی گئی تاکہ کسی کے ساتھ بھی نا انصافی نہ ہو اور وہ اپنے کیرییر کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکیں۔
کمیٹی فیصلہ کیسے کرتی ہے؟
افسران کے تبادلوں اور تقرری کے لیے دو کمیٹیان بنتی ہیں پہلی کمیٹی تقرریوں اور تبادلوں کے لیے افسران کے نام فائنل کرتی ہے اور ان سے ان کی چوائس کا سٹیشن پوچھتی ہے اور وہ پانچ سٹیشن بتاتے ہیں جبکہ دوسری کمیٹی ان افسران کے انٹرویو کرتی ہے اور اس کے بعد افسران کی کارکردگی، متعلقہ ملک اور خطے کے بارے میں علم اور زبان کو سامنے رکھتے ہوئے تقرری کی جاتی ہے۔ 

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کے افسران میں مایوسی اور اضطراب پایا جاتا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

درخواست گزار کے وکیل کا دعوٰی ہے کہ 2020 میں ایسی کوئی کمیٹی سرے سے تشکیل ہی نہیں دی گئی اور  ’مرضی سے تقرریاں اور تبادلے کر دیے گئے اور ان میں بھی میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ کیٹگریز کا بھی خیال نہیں کیا گیا۔ جس سے بہت سے قابل افسران کا حق متاثر ہوا۔ یہ پٹیشن انھی نا انصافیوں کے خلاف ہے۔‘
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ایڈہاک ازم اور کسی باقاعدہ پالیسی کے بغیر بیرون ملک تبادلوں کے لیے صوابدیدی اختیارات کے مسلسل استعمال سے وزارت خارجہ کے افسران میں مایوسی اور اضطراب پایا جاتا تھا اور انھیں مجبور کیا جاتا کہ وہ من پسند تعیناتی کے لیے وزارت خارجہ کے باہر سے سیاسی سفارش کا انتظام کریں۔
 2015 میں تعیناتیوں اور تبادلوں سے متعلق پالیسی کے تحت پوسٹنگ پلان بھی بنا اور اس پر عمل در آمد کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ 2017 میں سیکرٹری خارجہ نے کسی حد تک اس پر عمل بھی کیا۔ درخواست کے مطابق ’2018 اور 2019 میں اس پالیسی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا اور 2020 میں حیران کن طور پر افسران کی جانب سے میرٹ اور دیگر قانونی تقاضوں اور اقربا پروری کی حوصلہ شکنی کے مطالبے کے باوجود سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملیں۔ ‘
افسران کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ِانھوں نے وزارت کو خطوط بھی لکھے جن میں غیر ملکی تبادلوں میں پسند، اقراپروری، بیرونی اثر رسوخ کی نشان دہی کی گئی تھی۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں