Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گھر اور اس کی یادیں‘ اثرا میں نئی نمائش جو ’گھر‘ کے معانی تلاش کرے گی

نمائش اگلے برس یکم ستمبر تک جاری رہے گی 28 سعودی فنکار شریک ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
 کنگ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچر جسے عموماً اثرا کہا جاتا ہے، نے ’ایکوز آف دا فیمیلیئر‘ کے نام سے نئی نمائش کا افتتاح کیا ہے جو ’گھر‘ کے معانی تلاش کرے گی۔
عرب نیوز کے مطابق یہ نمائش 31 اکتوبر سے شروع ہوکر اگلے برس یکم ستمبر تک جاری رہے گی جس میں 28 سعودی فنکار حصہ لے رہے ہیں۔
غیدا المقرن اس نمائش کی نگران اور ’نور ریاض فیسٹیول‘ کی آرٹسٹک ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے اس منصوبے کے بارے میں عرب نیوز سے بات کی۔
بطور ایک نمایاں ماہرِ فن تعمیر اور عصرِ حاضر کے سعودی آرٹ میں ایک ممتاز حیثیت کی مالک، غیدا المقرن کے پاس فنِ تعمیر، ثقافت اور فن کو باہم یکجا کرنے کا تجربہ دو دہائیوں پر محیط ہے۔
وہ کہتیں ہیں ’ہم سوچ رہے تھے کہ کسی گھر اور اس کی دیواروں میں یادیں بسی ہوتی ہیں۔ اصل میں کچھ جگہوں پر تو دیواریں آپ سے سرگوشیاں کرتی ہیں۔ وہ ہمیں گھر کے ان مکینوں کی کہانیں سناتی ہیں جو کبھی یہاں رہتے تھے۔‘

’ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان دیواروں کے اندر کیا ہوا۔ پھر ہم ٹائیلوں پر چلتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے شور کو غور سے سنتے ہیں۔ اور اسی سے ایکو (بازگشت) کا تصور سامنے آیا۔‘
نمائش کا آغاز ایک چمکدار سرخ رنگ کے دروازے سے ہوتا ہے جو سٹائل پر مبنی ایک انتخاب ہے جو آگے جانے کے لیے ایک راستے کا کام بھی کرتا ہے۔
 یہ اس دور کو ظاہر کرتا ہے جب سعودی عرب کے مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں لکڑی کے دروازوں کی جگہ کنکریٹ کے بنے گھروں میں المونیم کے دروازوں نے لینی شروع کی جن پر رنگ برنگے شیشے لگے ہوتے تھے۔

غیدا المقرن کے مطابق’ نمائش میں دروازے کے انتخاب کا مقصد نجدی اور حساوی اور سعودی عرب کے مختلف ریجنوں میں پائے جانے والے  دیگر روایتی نمونوں کے ساتھ جڑنا تھا۔‘
’نمائش میں داخلے سے قبل آپ کے سامنے ایک ٹائم لائن آتی ہے جو آپ کو سعودی عرب کی پچھلی صدی کی کہانی سناتی ہے اور ان تمام تبدیلیوں۔۔۔بڑی تبدیلیوں کے بارے میں بتاتی ہے جن میں سے ہم گزرے ہیں۔‘
انہوں نے نمائش دیکھنے کے لیے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ’ ہمارا گھر، آپ کا گھر ہے۔‘
گیلری کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ’دا بلڈنگ‘ ’دا لیونگ رُوم‘، ’دا کچن‘، ’دا ہال وے آف میموریز‘، ’دا بیڈ رُوم‘ اور ’دا پیپل آف دا ہوم‘ شامل ہیں۔

نمائش میں شریک فنکار، مختلف پس منظروں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کا تعلق مختلف ریجنوں سے ہے جن میں حدودِ الشمالیہ، جدہ اور ریاض بھی ہیں۔ اس طرح نمائش میں کام کے لیے استمعال ہونے والے ذرائع بھی مختلف ہیں جو مملکت میں تنوع کا اظہار ہیں۔
المقرن کہتی ہیں ’میں حدود الشمالیہ میں پیدا ہوئی لہذا میرا گھر وہاں تھا۔ سو اب میں واپس آرہی ہوں۔ ہمارا خاندانی گھر پرانا تھا۔ ایک وقت آیا میری شادی ہوگئی اور میں امریکہ چلی گئی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’جب وہ سعودی عرب واپس آئیں تو ان کے اہلِ خانہ دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے۔ چنانچہ انہیں لگا کہ  پہلے گھر کی دیواروں سے ہونے والی سرگوشیاں کہیں کھو گئی ہیں۔ ایک طرح سے وہ میری یادیں تھیں۔’
ان کا کہنا تھا ’شہر بہ شہر گھرمتے ہوئے اس یاد کو تعمیر کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔  چنانچہ اب میں ان یادوں کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہوں اور چاہتی ہوں کے میرے بچے بھیں ویسا ہی محسوس کریں۔‘

 

شیئر: