Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بشت‘ عربوں کے شاہی انداز اور وقار کی علامت

عبداللہ جعفر اس لباس سے اپنی محبت کا سہرا اپنے والد کو دیتے ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)
اگر آپ آنکھیں بند کر لیں اورعام سعودی شخص کی تصویر بنانے کی کوشش کریں تو آپ اسے’ ثوب‘ اور’ بشت‘ میں ملبوس شخص کے طور پر تصور کر سکتے ہیں۔ یہ لباس ’مشلح‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بشت، عرب دنیا میں ٹخنوں کی لمبائی تک کا کرتا مردوں کا ایک جبہ ہے جو ثوپ کے اوپر پہنا جاتا ہے۔
اس لباس کی رنگت عام طور پر سیاہ، بھوری، سرمئی، خاکستری یا سفید  ہوتی ہے۔ یہ سب سے روایتی سعودی پہناوا ہے جسے امارت، دولت اور تقرب سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں اس کی تقریبا وہی اہمیت ہے جو کسی روایت پسند مغربی معاشرے میں بلیک ٹائی ٹکسیڈو کی ہے۔
’بشت‘ سعودی عرب میں خاص طور پر معروف ہے۔  دوسرے خلیجی ممالک میں بھی اسے پہنا جاتا ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ بشت خاص مواقع جیسے شادیوں وغیرہ پر پہنا جاتا ہے لیکن شاہی خاندان کے افراد ہمیشہ اسی لباس میں نظر آتے ہیں۔

بشت مردوں کا ایک جبہ ہے جو ثوپ کے اوپر پہنا جاتا ہے(فوٹو عرب نیوز)

کسی بھی دوسرے قسم کے لباس کی طرح بشت میں بھی مختلف خوبیاں ہیں۔ مارکیٹ میں نسبتا کم قیمت شامی اور اماراتی بشتوں سے لے کر دنیا میں بہترین سمجھے جانے والی حساوی بشت میسر ہوتی ہے۔ حساوی بشتالاحسا میں بنائی جاتی ہے اس معیار کا لباس کوئی بنا سکتا ہے اور نہ ہی یہ بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔
الاحسا کے سب سے مشہور بشت بنانے والوں میں سے ایک عبداللہ جعفر القطان نے سات سال کی عمر میں بشت پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ بشت سازوں کی کئی نسلوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے عبداللہ جعفر اس لباس سے اپنی محبت کا سہرا اپنے والد کو دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’میں نے اپنے والد کی دکان میں باہر کا کام کرنے والے لڑکے کی حیثیت سے شروعات کی تھی۔ آخر کار میں نے ضروری مہارت کو اپنانا شروع کیا۔‘
القطان نے اپنے والد کے سب سے معروف گاہکوں کی تصاویر عرب نیوز کو دکھائیں جن میں شاہ خالد اور ان کے ایک بیٹے، عمان کے سلطان قابوس اور بحرین کے متعدد شیوخ شامل ہیں۔ القطان نے کہا ’آپ کو سعودی شاہی شخصیات کی کوئی بھی تصویر نظر آئے میں آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ انہوں نے حساوی بشت پہن رکھی ہے۔‘

 دنیا میں بہترین حساوی بشت سعودی علاقے الاحسا میں بنائی جاتی ہے(فوٹو ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ بشت بنانے میں بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے، ایک بشت کو ہاتھ سے بنانے میں آٹھ افراد کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ ’ایک مشین ایک دن میں 12 بشت بنا سکتی ہے  لیکن ہاتھ سے بشت تیار کرنے میں 15 دن لگیں گے۔‘
بشت ہاتھ سے تیار ہو یا مشین سے ہو ہر دو صورتوں میں اس کی قیمت پر اثر پڑے گا۔ شامی اور اماراتی بشت عام طور پر سستی ہیں اور ان کی لاگت 200 سعودی ریال سے کم ہے۔
اگر مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کیا جائے تو اعلی درجے کے حساوی بشت کی قیمت 15000 سعودی ریال  تک ہوسکتی ہے۔

ہاتھ سے بشت تیار کرنے میں 15 دن  لگتے ہیں( فوٹوٹوئٹر)

اپنے والد کے بیٹوں میں سے سب سے بڑے ہونے کے ناطے القطان جانتے تھے کہ انہیں کنبے کی وراثت کو جاری رکھنا ہے۔ اسی لیے دیگر مصروفیات کے باوجود آخر کار وہ واپس آئے اور اپنے والد کے انتقال کے بعد سے بشت کی دکانوں پر موجود ہیں۔
اس معاملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’میں اسے اپنی وراثت سمجھتا ہوں۔ میرے خاندان نے سلسلے کو بہت محنت اور محبت سے یہاں تک پہنچایا ہے۔‘
القطان کی بشت کے کاروبار سے متعلق دکان کا ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ بھی ہے جہاں ان کی مہارت کے نمونوں کے ساتھ ساتھ، خریداری کے لیے آنے والی معروف شخصیات کی تصاویر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

شیئر: