Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کا سرپرائز!

گوجرانوالہ میں سابق وزیراعظم نواز کے خطاب پر حکومت کی جانب سے تنقید ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اے پی سی میں دھواں دھار تقریر کر کے عملی سیاست میں جو دوبارہ انٹری ڈالی تھی، گوجرانوالہ میں کی گئی تقریر سے وہ محاذ آرائی کی حکمت عملی  کو ایک قدم اور آگے لے گئے ہیں۔
نواز شریف کی گوجرانوالہ کی تقریر نا صرف ان کے اتحادیوں بلکہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے لیے بھی سرپرائز ثابت ہوئی ہے۔ خواجہ آصف نے خود ٹی وی انٹرویو میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ  انہیں اندازہ نہیں تھا کہ نواز شریف تقریر میں اداروں کے سربراہان کو اس طرح سے للکار دیں گے۔
جلسے میں موجود سینئر صحافیوں نے بھی اسی بات کی تصدیق کی کہ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کو بھی اس تقریر نے سرپرائز کر دیا۔
ویسے اگر غور کیا جائے تو، سرپرائز کرنے کی صلاحیت  شروع سے ہی نواز شریف کی سیاست کا خاصہ رہا ہے۔ ان کی اپنی پارٹی کی کور کمیٹی، یہاں تک کہ قریبی خاندانی رشتے بھی اہم فیصلوں اور تقرریوں کے بارے میں لا علم ہوتے ہیں۔
نواز شریف اپنے پتے اتنی شدت سے سینے کے ساتھ بھینچ کر رکھتے ہیں کہ اچھے اچھے اندازہ نہیں لگا پاتے کہ وہ کرنے کیا جا رہے ہیں۔ اسی سرپرائز کر نے کی صلاحیت نے نواز شریف کو بڑی کامیابیاں بھی دی ہیں اور جیل کی یاترا بھی کروائی ہے۔ یقیناً سرپرائز نواز شریف کا سب سے مؤثر اور پسندیدہ سیاسی ہتھیار ہے۔
سیاست اور کاروبار کے امتزاج سے سیاسی سفر شروع کرنے والے نواز شریف نہ تو بینظیر بھٹو کی طرح غیر ملک سے تعلیم یافتہ تھے اور نا ہی چوہدری برادران کی طرح مقامی جوڑ توڑ کے ماہر تھے۔
کم گو اور کسی حد تک عدم اعتماد کا شکار نواز شریف نے  اپنے ہر سیاسی حریف، چاہے وہ جونیجو ہو یا صدر اسحاق ہوں یا  پھر فاروق لغاری۔۔۔۔ اسی سرپرائز سٹریٹجی سے ان سے پیچھا چھڑایا۔ جسٹس  سجاد علی شاہ سے لے کر جنرل جہانگیر کرامت تک کئی عہدے دار اسی سرپرائز کا شکار ہوئے مگر جنرل پرویز مشرف کی بار یہ سرپرائز الٹا پڑ گیا اور میاں نواز شریف کی اپنی حکومت فارغ ہوئی اور نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔

سابق وزیراعظم نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے گوجرانولہ جلسے میں خطاب کیا (فوٹو: اے ایف پی)

سینئر صحافی سہیل وڑائچ کی شریف خاندان کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب کے مطابق آرمی چیف کی برطرفی ان کے قریبی ساتھی وزرا اسحاق ڈار اور نثار علی خان  حتیٰ کہ ان کے سگے بھائی شہباز شریف تک کے لیے سر پرائز تھا۔ ایسا ہی ایک سرپرائز انہوں نے اپنی قانونی ٹیم کے سربراہ بیرسٹر اعتزاز سمیت اپنے ساتھ والے بیرک میں قید غوث علی شاہ کو دیا جب وہ اپنے اہل خانہ، ملازمین اور درجن بھر سوٹ کیسوں کے ساتھ جہاز کے ساتھ عازم جدہ ہوئے۔
سرپرائز کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت دستخط کرنے کے بعد اسی جماعت  کے خلاف تحریک بھی چلائی اور اسی جماعت کے وزیراعظم  کے خلاف سپریم کورٹ بھی پہنچ گئے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب آصف علی زرداری محترمہ کلثوم نواز کی وفات کے بعد تعزیت کے لیے آنا چاہتے تھے تو ان کو منع کر دیا گیا۔ اب پھر اسی جماعت کے ساتھ بھائی چارہ اپنے عروج پر ہے مگر کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ کب میاں صاحب کوئی نیا سرپرائز دے دیں۔
گوجرانوالہ کی طبل جنگ بجانے والی تقریر کے بعد توقع تھی کہ کراچی کے کل ہونے والے جلسے میں نواز شریف ٹمپریچر اور بڑھائیں گے مگر ایسا ہو نہ سکا۔ کوئی کہتا ہے کہ پارٹی کے اندر سے یہ تجویزابھری کہ ابھی تھوڑا تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کے اس بیانیے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہے، اس لیے تقریر نہ ہو پائی۔

حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم میں اپوزیشن کی 11 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ہمیشہ کی طرح، فی الحال  نواز شریف نے اپنی ہی جماعت اور سیاسی ماحول کو بدستور سسپنس میں رکھا ہوا ہے۔ بہت شدید بیماری کے چرچے سے لے کر لندن میں چہل قدمی تک، اور مسلم لیگ کے چھ رہنماؤں کے ساتھ لے گئے، حلف اور ڈیل کی خبروں تک ہر موڑ پر سرپرائز ہی سرپرائز ہیں۔
جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن پر قانون سازی کے بعد ایسے لگتا تھا کہ شہباز شریف فرینڈلی اپوزیشن کا کردار جاری رکھیں گے اور نواز شریف چار سال تک لندن میں چپ سادھے رہیں گے۔ لیکن یہاں بھی انہوں نے اپنے من پسند ہتھیار سرپرائز  کا استعمال کر کے لندن میں بیٹھ کر بھی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
لگتا تو کچھ یوں ہے کہ نواز شریف کے کسی حلیف اور ان کی جماعت میں سے غالبا مریم نواز کے علاوہ کسی کو اندازہ نہیں کہ آگے کونسا سرپرائز باقی ہے۔

’نواز شریف کے فیصلوں سے پارٹی کے اہم رکن بھی لاعلم ہوتے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پرانے تجربات کے مطابق  ایک اور بات بھی طے ہے کہ ڈیل کی گنجائش بھی ہمیشہ رہتی ہے۔ چاہے معاملات کسی حد تک بھی چلیں جائیں پسپائی اور مصالحت کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے ابھی تک ان کے حلیف بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہچکچا رہے ہیں اور ان کی اپنی جماعت کے رہنما تذبذب کا شکار ہیں۔
اگر نواز شریف واقعی ایک دیر پا جمہوری تحریک چلانا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے حلیفوں کو ایک واضحہ یجنڈا دینا ہو گا مگر اس کا امکان کم ہی ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ سرپرائز سرپرائز میں ہی اپنے لیے کوئی راستہ نکالیں گے۔

 

باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: