Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی سیاست میں کون سے کارڈز کھیلے جاتے ہیں؟

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف احتجاج میں پیش پیش ہے (فوٹو: اے ایف پی)
 چند دن قبل جب لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت کے  40 کے لگ بھگ رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا اور حکومتی مشیروں نے  ن لیگ پر انڈیا سے رابطوں کا الزام عائد کیا تو اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت اس کے خلاف غداری کارڈ استعمال کر رہی ہے۔
 یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی سیاسی کارڈ کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ درحقیقت جب بھی ملک میں سیاسی محاذ گرم ہوتا ہے تو سیاسی حریفوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف کسی نہ کسی کارڈ کے استعمال کی بازگشت شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے تو کوئی غداری کارڈ، کبھی کرپشن کارڈ موثر ہوتا ہے تو کبھی پنجاب یا سندھ کارڈ۔
آخر یہ کارڈ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کارڈ کتنے موثر ہوتے ہیں اور کب ایکسپائر ہوتے ہیں۔

 

سیاسی کارڈز ہوتے کیا ہیں؟

عام خیال یہ ہے کہ تاش کے پتوں یا کارڈز کو جس طرح اپنے حق میں استعمال کر کے بازی جیتی جاتی ہے اسی طرح سیاسی کارڈز کا استعمال بھی مخالفین کو مات دینے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس نے کہا کہ کارڈز اصل میں سیاسی ایشوز کی علامت ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ اندازہ کرتی ہیں کہ کسی خاص وقت میں کون سے ایشوز ان کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دیکھتی ہیں کہ سیاسی اور سماجی حلقوں کی خواہشات یا توقعات کیا ہیں پھر ان کے مطابق اپنے بیانیے یا کارڈ کو تشکیل دیا جاتا ہے۔

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق پاکستان میں مذہبی جماعتیں الیکشن میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مثلاً پاکستان کے صوبہ سندھ میں قومیت کا معاملہ ہمیشہ سے اہم رہا ہے اور ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ایشو یا کارڈ کو ہمیشہ سے اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اس کا مقصد عوام کی خواہشات اور جذبات کے مطابق بیانیے کو تشکیل دے کر ان کی حمایت اپنے ساتھ قائم رکھنا ہے تاکہ کوئی اور یہ کارڈ نہ کھیل سکے۔  
سیاست دان ان کارڈز کو اپنی ساکھ کو بحال کرنے اور عوام میں اپنی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں کون سے کارڈ کھیلے جاتے ہیں؟

پاکستان میں مذہب اور غداری کے کارڈز سب سے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے کئی سیاسی کارڈز استعمال کیے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ملک بنتے ہی کرپشن کارڈ کو استعمال کیا گیا اور اسی وجہ سے سنہ 1949 میں ہی اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے پروڈا کے نام سے ایک قانون لوگو کیا جس کے تحت کرپشن کے الزام پر سیاست دانوں کو نااہل کیا جا سکتا تھا۔ یہ کارڈ آج بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف نے اپوزیشن کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ’کرپشن کارڈ‘ استعمال کیا (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کے خلاف غداری کارڈ بھی شروع سے ہی استعمال کیا گیا ۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ہمیشہ بڑے صوبوں کی جانب سے یہ کارڈ چھوٹے صوبوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ مغربی پاکستان جب بڑا صوبہ تھا تو اس کی جانب سے چھوٹے صوبے یعنی مشرقی پاکستان کے خلاف اس کارڈ کا استعمال 1954 کے انتخابات میں کیا گیا تاہم یہ کارڈ نہیں چلا اور مشرقی پاکستان کا سیاسی اتحاد ’جگتو فرنٹ‘ بھاری اکثریت سے جیت گیا تھا۔ بعد میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بڑے صوبے پنجاب کی طرف سے دوسرے صوبوں کے خلاف اسے استعمال کیا گیا تاہم اب پہلی بار پنجاب کی قیادت کے حوالے سے بھی اس کارڈ کا استعمال ہوا ہے تاہم پنجابی کو غدار کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سینیئر صحافی اور ڈان اخبار کے سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر محمد ضیا الدین کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر غداری کارڈ استعمال کیا گیا جسے کبھی قرارداد پاکستان پیش کرنے والے اے کے فضل الحق کے خلاف استعمال کیا گیا تو کبھی مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف اور کبھی تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے سندھی رھنما جی ایم سید کے خلاف۔

محمد ضیا الدین کے مطابق وسطی پنجاب کے لیڈر نواز شریف کے خلاف استعمال کے بعد اب غداری کارڈ اپنی اہمیت کھو چکا ہے (فائل فوٹو)

اس کے علاوہ محمد ضیا الدین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے ہی لسانی اور صوبائی کارڈز بھی استعمال کیے جب سابق صدر جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں اپنے خلاف پائے جانے والے جذبات کا مقابلہ کرنے کے لیے لسانی تنظیم ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا۔ اسی طرح جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم  بننے لگیں تو ’جاگ پنجابی جاگ‘ کے نعرے کے تحت نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوایا گیا اور بے نظیر بھٹو کو حلف اس وقت تک نہیں اٹھانے دیا گیا جب تک نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بن گئے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی سندھ کارڈ نہیں کھیلتی تو ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے کبھی سندھ کارڈ کی بات نہیں کی۔
رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کارڈ پاکستان میں استعمال تو کیا گیا مگر کبھی اس سے سیاسی کامیابی نہیں حاصل ہوئی کیونکہ مذہبی جماعتیں الیکشنز میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئیں۔
تاہم رسول بخش رئیس کی بات سے اس حد تک اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی کارڈ اگر حکومت بنانے میں مدد نہیں دے سکا تو گرانے میں ضرور معاون ثابت ہوا ہے۔
حالیہ تاریخ میں لال مسجد آپریشن کے بعد فوجی صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حامی جماعت مسلم لیگ ق کے خلاف مذہب کارڈ استعمال ہوا اور انتخابات میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

گذشتہ عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح مسلم لیگ نواز کی حکومت میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے فیض آباد دھرنا اور دیگر احتجاجوں نے حکومت کا پہیہ جام کر دیا تھا اور 2018 کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے خلاف مذہب کارڈ کسی حد تک کامیابی سے استعمال ہوا اور کئی نشستوں پر  مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک کے امیدواروں کے ووٹ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ہرانے میں معاون ثابت ہوئے۔

کارڈز کب ایکسپائر ہوتے ہیں؟

سیاسی کارڈ ہمیشہ ہی کارآمد نہیں رہتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت بڑھتی کم ہوتی رہتی ہے۔ پروفیسر رسول بخش کے مطابق جب کوئی ایشو عوام کے لیے اہم نہیں رہتا تو اس کا کارڈ استعمال کرنا بے کار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی نے برسوں پشتون کارڈ کھیلا اور انتخابی فائدہ بھی اٹھایا مگر اب وہ الیکشن ہار جاتی ہے گویا اس کا یہ کارڈ ایکسپائر ہو گیا ہے۔
محمد ضیاالدین کے مطابق وسطی پنجاب کے لیڈر نواز شریف کے خلاف استعمال کے بعد اب غداری کارڈ بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے کیونکہ وسطی پنجاب سے ہمیشہ اس کارڈ کی حمایت کی جاتی تھی مگر اب اسے عوامی تائید حاصل نہیں رہی۔
 رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ کسی بھی کارڈ کو استعمال کرنے کے لیے سیاسی رہنما کا عوام کی نبض پر ہاتھ ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غداری ایک سنگین الزام ہے جسے لگانے میں احتیاط نہیں کی جاتی۔ 

شیئر: