Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رائے عامہ کے جائزوں میں بائیڈن، ٹرمپ سے آگے رہے

پولز کے مطابق صدر ٹرمپ کو سفید فام اور مال دار ووٹرز کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے
امریکہ کے آئندہ صدر کے لیے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ اور حفاظت کے پیش نظر تقریباً 10 کروڑ ووٹرز ووٹنگ کے دن سے قبل ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں جو کہ 2016 میں ڈالے گئے کل ووٹوں کا 72 اعشاریہ 8 فیصد بنتے ہیں۔
پولنگ سے پہلے تک رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق امریکہ کے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت حاصل رہی تاہم اس کے باوجود ماہرین اسے ایک سخت مقابلہ قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ کے سب سے بڑے نیوز چینل سی این این کے پول کے مطابق 52 فیصد ووٹرز جو بائیڈن کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے جبکہ 42 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔
امریکہ کے اے بی سی نیوز اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک تازہ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق 56 فیصد امریکیوں نے کہا کہ وہ 2020 صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیں گے۔
امریکہ کے ایک اور نیوز چینل فوکس نیوز کے سروے میں کہا گیا تھا کہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کو 53 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 43 فیصد ووٹرز کی حمایت رکھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی 2016 کی کامیابی بنیادی طور پر سفید فام ووٹرز کے ذریعے چلائی گئی۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق یہ کل ووٹوں کا 69 فیصد بنتے ہیں اور گذشتہ الیکشن میں 58 فیصد سفید فام ووٹرز نے ری پبلکن پارٹی جبکہ 37 فیصد نے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔

سی این این کے پول کے مطابق 52 فیصد ووٹرز بائیڈن جبکہ 42 فیصد ٹرمپ کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’ایگزٹ پولز کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سفید فام اور مال دار ووٹرز، سفید فام تعلیم یافتہ نوجوانوں اور سفید فام خواتین ووٹرز کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔‘
اسی طرح گذشتہ الیکشن میں 63 فیصد سفید فام مرد اور 53 فیصد سفید فام خواتین ووٹرز نے ری پبلکن پارٹی جبکہ 31 فیصد سفید فام مرد اور 43 فیصد خواتین ووٹرز نے ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں رائے دی تھی۔
امریکہ اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اکتوبر میں ہونے والے ایک قومی پول میں سیاہ فام اور ہسپانوی ووٹرز کی اکثریت نے پول کرنے والوں کو بتایا کہ وہ سابق نائب صدر اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس پول کے مطابق صدر ٹرمپ کی مردوں اور خواتین دونوں میں حمایت 2016 کی نسبت نو پوائنٹس کم ہوئی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی مردوں اور خواتین میں 2016 کی نسبت حمایت کم ہوئی ہے (فوٹو: روئٹرز)

’زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنا کامیابی کی ضمانت نہیں‘

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ یا جو بائیڈن کو امریکہ کی 50 ریاستوں کے 538 ووٹوں کے الیکٹورل کولالج میں سے جیتنے کے لیے کم سے کم 270 الیکٹورل ووٹوں کی ضرورت ہے۔
امریکہ میں یہ ضروری نہیں کہ زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ہی صدر منتخب ہو۔ امریکہ میں گذشتہ 20 برسوں میں دو مرتبہ ایسا ہوا ہے جب زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار الیکشن ہار گیا جبکہ کم پاپولر ووٹ حاصل کرنے والا صدارت کے منصب پر فائز ہوگیا۔
 سنہ 2000 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ایلگور نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار جارج بُش سے اگرچہ پانچ لاکھ 47 ہزار ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے لیکن اس کے باوجود وہ الیکشن نہ جیت سکے۔
اسی طرح 2016 کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور سابق صدر بِل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے تقریباً 30 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے تاہم وہ ناکام رہیں۔

شیئر: