Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ: اس بار بھی فیصلہ ’سُوئنگ‘ ریاستوں کے ہاتھ

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن کے درمیان وائٹ ہاؤس کے لیے مقابلہ جاری ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیشتر ریاستوں میں پولنگ کا وقت ختم ہو چکا ہے جبکہ ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
جیسے جیسے انتخابات کا نتیجہ آ رہا ہے، امریکی میڈیا ریپبلکن کی جیت کے بارے میں خبریں دے رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 23 ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اپنی ریاست، نیویارک اور امریکی دارالحکومت سمیت 18 ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
جن ریاستوں میں ڈیموکریٹ کی سابق امیدوار ہیلری کلنٹن نے 2016 میں کامیابی حاصل کی تھی وہاں جو بائیڈن کو بھی کامیابی ملی۔
ابھی تک صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے 238 الیکٹورل ووٹ جیتے جبکہ صدر ٹرمپ نے 213 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔
فلوریڈا میں نمایاں برتری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ، جوبائیڈن سے آگے ہیں۔ فلوریڈا میں اب تک 90 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے۔
فلوریڈا کو نمایاں ’سوئنگ سٹیٹ‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے کے لیے یہاں کامیاب ہونا ضروری تھا۔
جو بائیڈن نے ایریزونا میں کامیابی حاصل کی، ایریزونا کو ریپبلکن کا گڑھ سمجھا تھا۔ 2016 میں یہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی ملی تھی۔ ایریزونا کے 11 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مزید چار برس تک اپنی صدارت جاری رکھنا چاہتے ہیں تاہم ان کے حریف جوبائیڈن اس بات کی توقع کر رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر کو ہٹا دیں گے۔
منگل کو امریکیوں بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق کہ ریپبلکن امیدوار صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے جہاں انہوں نے 2016 میں انتخابات جیتے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق کے ریاست الاباما، آرکنساس، فلوریڈا، آئی ڈاہو، انڈیانا، لووا، کینساس، کینٹکی، لوزیانہ، میسیپی، ساؤتھ کیرولاوئنا، ساؤتھ ڈکوٹا، اوکلوہوما، ٹیناسی، مونتانا، نبراسکا، اوتا اور ویسٹ ورجینا میں صدر ٹرمپ نے کامیابی حاصل کی ہے۔
جو بائیڈن نے جنوب مغربی ریاست ایریزونا، نیویارک، کیلیفورنیا، کولوراڈو، کنیکٹکٹ، ڈیلا ویئر، ڈسٹرک آف کولمبیا، ہوائی، الینوئس، میری لینڈ، میسا چیوسٹس، نیو جرسی، نیو میکسیکو، اوریگون، ورجینیا اور واشنگٹن میں کامیابی حاصل کی۔
 

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ یا جو بائیڈن کو 270 الیکٹورل ووٹوں کی ضرورت ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)

فلوریڈا میں تقریبا نوے فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد ٹرمپ سبقت بنائے ہوئے ہیں۔ اس ریاست کو اہم سوئنگ ریاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے صدر ٹرمپ کی اس ریاست میں جیت لازمی ہے۔
اگرچہ منگل باضابطہ طور پر امریکی صدر کے الیکشن کا دن تھا، لیکن درحقیقت امریکی کئی ہفتوں سے ووٹ ڈال رہے تھے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ اور حفاظت کے پیش نظر تقریباً 10 کروڑ ووٹرز ووٹنگ کے دن سے قبل ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے تھے۔ 
اس الیکشن کو صدر ٹرمپ کی چار سالہ دور صدارت کے حوالے سے ایک ریفرنڈم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو ری پبلکن امیدوار صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے، تاہم صدر ٹرمپ نے پیر کے روز چار ریاستوں میں پُرہجوم ریلیوں کے ساتھ جارحانہ انداز سے اپنی انتخابی مہم چلائی اور امریکی صدر کے لیے اپنے بے مثال دعوؤں کو دہرایا کہ 'ان کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کا خدشہ ہے۔'
 

 تقریباً 10 کروڑ ووٹرز پولنگ کے دن سے قبل ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے اختتام پر کہا کہ وہ ایک اور 'خوبصورت فتح' حاصل کرنے جا رہے ہیں جبکہ جو بائیڈن کا ووٹرز سے کہنا تھا کہ وہ 'جمہوریت کو بچائیں'۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عام طور پر امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کو ریاست مشی گن سے کامیابی نہیں ملتی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے چار برس قبل 2016 کے الیکشن میں اس ریاست میں حیران کن اپ سیٹ کیا تھا۔
پیر کی شام اپنی الیکشن مہم کے اختتام کے لیے 2016 کی طرح صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مشی گن کے شہر گرینڈ رپپڈز کا رخ کیا۔
کیا یہ توہم پرستی ہے؟ جی ہاں، بالکل، ایسا ہی ہے اور صدر ٹرمپ نے اس کا اعتراف کیا۔
صدر ٹرمپ نے گرینڈ رپیڈز جانے سے قبل وسکونسن کے علاقے کینوشا میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا کہ ْہم نے چار برس قبل وہاں اختتام کیا تھا۔ میں کچھ توہم پرست ہوں۔ چلیں، دوبارہ وہیں چلتے ہیں۔'

ڈونلڈ ٹرمپ نے بھرپور مہم انتخابی چلائی اور بڑی ریلیوں سے خطاب کیا (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب فیس بک اور ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کی ایک ٹویٹ کو 'گمراہ' کرنے والی قرار دیا ہے جس میں انہوں نے میل بیلٹ یا ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے کے عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں ریاست پنسلوینیا میں تشدد کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'پنسلوینیا میں ووٹنگ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے دھاندلی کو نہیں روکا جاسکے گا اور یہ ہمارے قانون اور نظام کی نفی کرے گا۔'

شیئر: