Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالت کا راستہ ٹرمپ کے لیے کتنا آسان ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن نتائج کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے، لیکن بظاہر ان کے لیے یہ رستہ بھی دشوار ہونے کا امکان ہے۔
اب تک صرف دو مواقع پر امریکی صدر کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوا ہے اور وہ انتخابات بھی ابھی تک تاریخ میں تنازعات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔  
پہلی مرتبہ 1876 میں ری پبلکن امیدوار رتھرفورڈ بی ہائس اور ڈیموکریٹ سیموئیل ٹلڈن میں سخت مقابلے کے بعد 20 الیکٹورل ووٹ پر تنازع کھڑا ہو گیا۔
اس تنازعے کے بعد کانگرس نے سپریم کورٹ ججوں، سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے اراکین پر مشتمل ایک وفاقی انتخابی کمیشن تشکیل دیا جس نے رتھر فورڈ کو کامیاب قرار دیا۔  
جدید تاریخ میں یہ معاملہ سال 2000 کے انتخابات میں پیش آیا جب ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش اور ڈیموکریٹ ایلگور کے مابین مقابلے میں ریاستی مشینری نے فلوریڈا کی ریاست میں دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا۔ یہاں جارج ڈبلیو بش کی ابتدائی کامیابی کو ایلگور نے چیلنج کر دیا۔  
ریاست فلوریڈا کی سپریم کورٹ کے ایلگور کے حق میں فیصلے کے خلاف بش امریکہ کی سپریم کورٹ میں چلے گئے جس نے چار کے مقابلے میں پانچ ججوں کی رائے سے فلوریڈا کی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے دوبارہ گنتی رکوا دی اور بش یہ معرکہ جیت کر پانچ سو ووٹوں کے فرق سے صدر منتخب ہو گئے۔  
لیکن ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے لیے یہ لڑائی اتنی آسان نہیں ہو گی۔ 
بین الاقوامی قانون کے ماہر اور پاکستان کے سینیئر وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ اس قانونی لڑائی کے لیے ایک سال تک کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ 

دوبارہ گنتی کے خلاف سابق صدر جارج ڈبلیو بش بھی سپریم کورٹ گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

’کوئی ایسا نظام نہیں کہ وہ (فوری فیصلے کے لیے) براہ راست سپریم کورٹ چلے جائیں۔ پہلے انہیں ان ریاستوں کی عدالتوں میں جانا پڑے گا۔ جہاں کے نتائج پر انہیں اعتراض ہے۔ اس کے بعد ان عدالتوں کے فیصلوں پر دو میں سے کوئی ایک فریق امریکی سپریم کورٹ میں جائے گا اور اس کے جج ان اپیلوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنائیں گے۔‘ 
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ اگر گنتی کے عمل پر عدالت حکم امتناعی جاری نہیں کرتی تو ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کا تفصیلی فیصلہ لینے کے لیے صدارت چھوڑنی پڑے گی۔  
’عدالت ووٹر کا ووٹ منسوخ نہیں کر سکتی۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ووٹ کو نظر انداز کر دیں۔ اگر گنتی کا مسئلہ ہے تو عدالت اس عمل پر فیصلہ دے سکتی ہے۔‘ 
سابق سول سرونٹ، ماہر قانون اور تجزیہ کار عدنان رندھاوا کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو عدالت سے کامیابی ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔ 

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتدائی نتائج آنے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ جانے کی دھمکی دی (فوٹو: اے ایف پی)

’دونوں امیدواروں کے مابین ووٹوں کا مارجن کافی زیادہ ہے۔ صدر ٹرمپ کو عدالت نہیں جانا چاہیئے۔ اس سے قبل سال 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے عدالت کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن ان کے انتخاب کو آج بھی متنازع سمجھا جاتا ہے۔‘ 
عدنان رندھاوا کا کہنا ہے کہ مختلف تجزیہ کار امریکی سپریم کورٹ کے نو ججوں میں سے چھ کو ٹرمپ کے قریب قرار دے رہے ہیں لیکن نتائج میں مارجن اتنا زیادہ ہے کہ شاید یہ بھی ٹرمپ کے حق میں نہیں جا سکےگا۔  
تاہم ان کا خیال ہے کہ مخصوص حالات میں اس مقدمے کا فیصلہ جلدی ہو سکتا ہے۔ 
’صدر کے انتخاب کا معاملہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فیصلہ جلدی ہو جائے اور عدالتیں تیز رفتاری سے یہ معاملہ نمٹا دیں۔‘ 
امریکی قانون کو جاننے والے ایک اور آئینی ماہر حزیمہ صدیقی کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ میں آ سکتا ہے۔
 اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 20 جنوری  کوجب نیا صدر اپنی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے اگر اس دن تک ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے مابین انتخابی تنازع طے نہیں ہوتا تو پھر کانگریس کا سپیکر صدر کا عہدہ سنبھال سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اگر پوسٹل بیلیٹ کو چیلنج کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے امکانات ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے حامی جج یہ کہہ سکتے ہیں کہ کووڈ کی وجہ سے پوسٹل بیلیٹس کی مکمل تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔

شیئر: