Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا صدارتی انتخاب کا فیصلہ عدالت کر سکتی ہے؟

صدارتی انتخاب کے دوران کروڑوں افراد نے وبا کی وجہ سے اپنے ووٹ ڈاک کے ذریعے بھیجے۔ فوٹو: روئٹرز
امریکہ میں صدارتی انتخاب میں کانٹے کے مقابلے کے دوران ڈیموکریٹ اور ریپبلکن پارٹیوں نے جیت کا فیصلہ کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔
بدھ کو جب صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ ووٹوں کی گنتی کا فیصلہ کرنے کے لیے سپریم کورٹ جائیں گے۔ ان کی ٹیم نے وسکونسن ریاست میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا جبکہ مشی گن اور پنسلوینیا وریاستوں میں اس حوالے سے مقدمات دائر کئے۔
یہ تینوں ریاستیں صدارتی انتخاب میں حتمی نتائج کے حوالے سے اہم ہیں۔
یو ایس نیٹ ورک نے مشی گن اور وسکونسن میں جو بائیڈن کو کامیاب قرار دیا ہے جبکہ پنسلوینیا میں کانٹے کا مقابلہ جاری ہے۔
بدھ کی رات صدر ٹرمپ کی ٹیم نے جورجیا ریاست میں بھی اس وقت مقدمہ دائر کیا جب بائیڈن پر ڈونلڈ ٹرمپ کی برتری میں معمولی کمی ہوئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے نظر آتا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ ہی کرے گی جیسے کہ سنہ 2000 کے صدارتی انتخاب میں اعلیٰ ترین عدالت نے ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار طے کیا تھا۔
حالیہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی ٹیم نے مقدمات میں الیکشن کے اس نئے رخ کو نشانہ بنایا ہے جس کے تحت کروڑوں افراد نے کورونا کی وبا کے باعث پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔
وبا نے ریاستوں کو مجبور کیا کہ وہ پوسٹل بیلٹ کی ترغیب دیں اور اس کے لیے قواعد کو تبدیل کریں۔
امریکی پوسٹل نظام پر دباؤ کی وجہ سے قواعد میں نرمی کرتے ہوئے پوسٹل بیلٹ کی وصولی اور ان کو گنتی کے عمل میں شامل کرنے کے وقت میں اضافہ کیا گیا۔
ریپبکن پارٹی کا کہنا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے اس نظام میں تبدیلی اور اس پر عمل کے لیے غیر مناسب طریقہ کار اختیار کیا گیا جس سے ڈیموکریٹس کو فائدہ پہنچا۔ 
ٹرمپ کی کمپین ٹیم نے کہا ہے کہ وہ پنسلوینیا میں ری پبلکن کی جانب سے دائر مقدمے میں شامل ہوگی جس میں پوسٹل بیلٹ یا ’میل ان بیلٹ‘ وصول کرنے کی تاریخ میں توسیع کو چیلنج کیا گیا ہے۔ 
اے ایف پی کے مطابق اگر ٹرمپ کی ٹیم کو اس میں کامیابی ملتی ہے تو ان ہزاروں ووٹوں کو منسوخ کیا جا سکتا ہے جو تین نومبر کے بعد ڈاک کے ذریعے پہنچے۔
ریاست پنسلوینیا کی سپریم کورٹ نے تاریخ میں توسیع کو قانونی قرار دیا تھا اور گذشتہ ہفتے امریکی سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کیا تھا۔
 تاہم ہائی کورٹ نے الیکشن کے بعد اس معاملے کو چیلنج کرنے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔
ٹرمپ کی ٹیم نے پنسلووینیا میں ووٹوں کی گنتی کو عارضی طور پر روکنے کے لیے مقدمہ دائر کرنے کا بھی اعلان کیا۔

صدر ٹرمپ الیکشن سے قبل بھی ووٹنگ کے عمل میں دھاندلی کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

فلاڈلفیا میں ووٹوں کی گنتی کو لائیو سٹریم کیا گیا۔
مشی گن میں ٹرمپ کی ٹیم نے ووٹوں کی گنتی معطل کرنے کے لیے دائر مقدمے میں کہا ہے کہ ان کو ’بامعنی رسائی‘ نہیں دی گئی۔ جورجیا میں دائر کیے گئے مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’ان تمام ووٹوں کو قانونی بیلٹ سے الگ کیا جائے جو ڈاک کے ذریعے دیر سے موصول ہوئے۔‘ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابی معاملات میں مقدمات اسی وقت فائدہ مند ہوتے ہیں جب کسی حقیقی مسئلے پر توجہ دی گئی ہو اور ووٹوں کے نتائج میں معمولی فرق ہو۔
ریاست آئیوا کی یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈیرک ملر کے مطابق اگر ریاست میں دو امیدواروں کے ووٹوں میں فرق دو یا تین فیصد ہو، جیسے کہ پنسلوینیا میں ایک لاکھ ووٹوں کا فرق۔ ’اس طرح کی صورتحال میں بالآخر قانونی جنگ کا نتیجہ حق میں نکلنا مشکل ہے۔‘
تاہم پروفیسر ملر کا کہنا تھا کہ اگر معاملہ کسی ایک ریاست پر آ کر رک گیا تو پھر سنجیدہ نوعیت کی قانونی لڑائی ہوگی۔

قانونی ماہرین کے مطابق پہلے مرحلے میں ریاستوں کے عدالتی نظام سے فیصلے کرانا ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

اے ایف پی کے مطابق کسی بھی صدارتی امیدوار کو کسی ریاست کے قواعد سے مسئلہ ہو تو پہلے مرحلے میں وہاں کی عدالتوں میں تمام مراحل طے کرنے اور فیصلے کے بعد ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ الیکشن میں بیلٹ توسیع کیس میں ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے ہائی کورٹ جانے کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ تاہم امریکی سپریم کورٹ ایسے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے محتاط ہے جہاں ریاستوں نے فیصلے کیے ہوں۔
سپریم کورٹ میں صدارتی انتخاب کا معاملہ جانے سے وہاں موجود چھ کنزرویٹو اور تین لبرل ججز بھی سیاسی جھکاؤ کی وجہ سے خبروں میں آ جائیں گے جن میں ایمی کونے بیرٹ بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ ماہ ہی اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔
صدر ٹرمپ نے خاتون جج کو نامزد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر الیکشن کے کیسز کی سماعت کر سکیں۔

صدر ٹرمپ نے تین ریاستوں میں اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے الیکشن کے عمل کو چیلنج کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پروفیسر ملر کے مطابق سنہ 2000 میں سپریم کورٹ نے یہ بات محسوس کی تھی کہ اس کو معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے مگر ضروری نہیں کہ اِس وقت بھی وہ سمجھتے ہوں کہ ان مداخلت کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ سنہ 2000 کے امریکی صدارتی الیکشن کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تھا جہاں ریپبلکن جارج بش اور ڈیموکریٹ الگور کے درمیان فلوریڈا کی ریاست میں ووٹوں کی گنتی پر تنازع پیدا ہوا۔
ریاست میں جارج بش کو صرف 537 ووٹوں کی برتری حاصل تھی اور ریاست میں پنچ کارڈ بیلٹ پر مسائل سامنے آئے تھے۔ الگور کی ٹیم نے ملک بھر میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا تاہم بش کی ٹیم معاملے کو سپریم کورٹ لے گئی تھی جہاں صرف فلوریڈا کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ ہوا اور جارج بش جیت گئے۔

شیئر: