Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آگے والے پلیز بیٹھ جائیں

'انڈیا میں یوں کسی بڑے ایڈیٹر کا گرفتار کر لیا جانا کوئی مزاق بات نہیں ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی
آپ نے تو سنا ہی ہوگا کہ اگر دو لوگ آپس میں چاک و گریباں ہوں تو آگے کھڑے ہوئے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ فوراً بیٹھ جائیں تاکہ پیچھے والوں کو بھی صاف نظر آتا رہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کو دوسروں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ایسا ہی ایک مقابلہ ریپبلک ٹی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی اور مہاراشٹر کی حکومت کے درمیان چل رہا ہے۔ کہانی کچھ یوں شروع ہوئی تھی کہ مہارشٹر میں شیو سینا نے اپنے پرانے اتحادی بی جے پی سے دوستی ختم کرکے کانگریس کے ساتھ حکومت بنا لی۔ کسی کو امید نہیں تھی کہ یہ شادی چل پائے گی، اس میں وہ ساری کمیاں موجود تھیں جو ایک ہند مسلم شادی میں ہوتی ہیں، لیکن معجزے ہوا بھی کرتے ہیں، اس لیے ان کی جوڑی ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔
ریپبلک ٹی وی کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ اس کی تھوڑی سی ہمدردی بی جے پی کے ساتھ ہے اور چینل والے بی جے پی مخالف پارٹیوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ٹی وی انہیں نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا، تو پھر شیو سینا ہی کے ساتھ کیوں الگ سلوک کیا جاتا۔
دونوں کے رشتوں میں تلخی تو تھی ہی پھر سشانت سنگھ راجپوت کی موت ہوگئی۔ اور ریپبلک ٹی وی یہ ثابت کرنے میں لگ گیا کہ یہ قتل تھا بس ریاستی حکومت اور پولیس اسے خود کشی دکھا کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
اب شیو سینا کی ریپیوٹیشن کے بارے میں آپ کو کیا بتائیں، ذرا ڈر لگتا ہے۔ لیکن اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ 1993 کے دنگوں میں، جب بابری مسجد کی مسماری کے بعد ممبئی میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، پارٹی کا کافی ذکر ہوا تھا۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جب شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے کہتے تھے کہ پاکستان کی ٹیم ممبئی میں میچ نہیں کھیلے گی تو پوری حکومت ان کی خوش آمد میں لگ جاتی تھی۔
اب ان کے بیٹے ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں اور ارنب گوسوامی لائؤ ٹی وی پر انہیں چیلنج کر رہے تھے وہ بھی ایسی زبان میں جو کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں۔ شیو سینا والے مہینوں سنتے رہے، سوچا ہوگا کہ یار بات آئی گئی ہو جائے گی، یہ ٹی وی والے کہاں کسی ایک سٹوری پر ٹکتے ہیں بور ہو کر آگے بڑھ جائیں گے، لیکن پھر شاید بات برداشت سے باہر ہوگئی۔ اب ہمیں نہیں پتا کہ کس نے کس کو اشارہ کیا لیکن پولیس نے ممبئی میں ارنب گوسوامی کے گھر میں گھس کر انہیں گرفتار کر لیا۔

'ارنب کی گرفتاری پر اگرچہ میڈیا نے ۔۔۔ کہا کہ ارنب چاہے جیسے بھی ہوں۔۔۔ان کی گرفتاری پریس کی آزادی پر حملہ ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

کیس دو سال پرانا ہے۔ ایک سٹوڈیو ڈیزائنر نے خود کشی کرلی تھی اور بعد میں یہ الزامات سامنے آئے تھے کہ ارنب کی کمپنی نے ان کی پیمنٹ نہیں کی تھی۔
انڈیا میں یوں کسی بڑے ایڈیٹر کا گرفتار کرلیا جانا کوئی مزاق بات نہیں ہے۔ یا کم سے کم پہلے تو نہیں تھی لیکن آج کل مذاق کا سٹینڈرڈ بھی بدل گیا ہے۔
لیکن ارنب کی گرفتاری پر اگرچہ میڈیا نے ایک دو بیان تو جاری کیے، کہا کہ ارنب چاہے جیسے بھی ہوں۔۔۔ان کی گرفتاری پریس کی آزادی پر حملہ ہے لیکن اس کے بعد سے سب سکون کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے ہیں اور تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بس ان کے دفاع میں بی جے پی والے ہی بول رہے ہیں۔
اور ساتھ میں سوشل میڈیا پر کمنٹری بھی چل رہی ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ارنب کو اب سمجھ آیا ہوگا کہ سشانت سنگھ کی گرل فرینڈ ریا چکرورتی پر جیل میں کیا گزری ہوگی جنہیں جیل بھیجنا ریپللک سمیت کچھ چینلوں نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔

ایڈیٹر کی گرفتاری پر ہنگامہ کے بجائے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ میڈیا اور خود ارنب کے لیے خود احتسابی کا وقت ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سونے پے سہاگا یہ کہ دلی ہائی کورٹ نے ریپبلک اور ایک اور چینل سے کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا مواد نشر نہیں کر سکتے جس سے بالی وڈ کے ستاروں کی بدنانی ہوتی ہو۔ بالی وڈ کی بڑی ہستیوں نے ریپبلک کی الزام تراشیوں سے پریشان ہوکر عدالت سے رجو ع کیا تھا۔
انڈین میڈیا میں اس وقت ارنب کا کوئی دوست نہیں ہے۔ ان پر ٹی وی جرنلزم کو ایک ایسے موڑ پر لاکر چھوڑنے کا الزام ہے جہاں صحافتی اقدار کی پاسداری کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ جس کے بارے میں جو چاہا کہہ دیا، لائو شو میں جس مہمان کو چاہا ذلیل کر دیا۔۔۔بس مختصر یہ ہے کہ ٹی وی اور سرکس میں کام کرنے میں بس ایک ہی فرق باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ سرکس میں کام کرنے کے لیے بہت ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایڈیٹر کی گرفتاری پر ہنگامے کے بجائے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ میڈیا اور خود ارنب کے لیے خود احتسابی کا وقت ہے۔ واٹس ایپ یونیورسٹی پر میں نے پڑھا کہ ارنب کو یہ پانچ باتیں پتا چل گئی ہوں گی۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ ارنب کو اب سمجھ آیا ہوگا کہ ۔۔۔ ریا چکرورتی پر جیل میں کیا گزری ہوگی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک: وہ ٹی وی چینل کو عدالت سمجھتے تھے لیکن ہے نہیں۔ اگر ان کا چینل عدالت ہوتا تو مہارشٹر کی حکومت ان کی گرفتاری کی اجازت لینے کے لیے انہیں کی عدالت میں حاضر ہوتی۔
دو: دوستی اور رشتہاری تو کسی سے بھی کر لیجیے لیکن دشمنی کمزور سے ہی ٹھیک رہی ہے۔ شو سینا کے اب انداز ذرا بدلے ہوئے ہیں لیکن اگر آپکا گھر ممبئی میں ہے اور دیواریں شیشے کی ہیں تو ذرا احتیاط میں کیا برائی ہے۔
تین: جیل میں گزاری گئی رات گھر یا سٹوڈیوں میں گزرنے والی رات کے مقابلے کہیں دیر سے کٹتی ہے۔
چار: لڑائی شروع کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کی گنتی ضرور کر لیں، ارنب کو اس کام میں 10 سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے۔
اور پانچ، آپ کتنے بھی بڑے صحافی ہوں، خود اپنی ضمانت کا حکم نہیں دے سکتے۔

'ارنب کے پاس بہت پیسہ ہے اور اثر رسوخ بھی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دیدی ہے۔' فائل فوٹو: اے پی

اس لیے ارنب گوسوامی ابھی کچھ وقت اور جیل میں گزاریں گے۔ ارنب کے پاس بہت پیسہ ہے اور اثر رسوخ بھی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دیدی ہے۔ ان کے وکیل ہریش سالوے ہیں جنہوں نے کل بھوشن جادھو کے کیس میں بین الاقوامی عدالت میں انڈیا کے موقف کی وکالت کی تھی۔
دیر سویر ضمانت تو انہیں مل ہی جائے گی، باقی میڈیا چاہے کتنے بھی مزے لیتا رہے۔
مہاراشٹر کے ایک وزیر نے کہا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے۔ اس کیس میں کتنا دم ہے یہ تو عدالت میں ہی معلوم ہوگا لیکن جب صحافت اور دشمنی میں فرق دھندلا ہونے لگے تو میڈیا کو بھی اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
بس یہ ہی امید ہے کہ جو لوگ پیچھے سے دیکھ رہے ہیں وہ سبق بھی حاصل کر رہے ہوں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں