Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماجد خان کی لنچ سے پہلے سنچری

ماجد خان نے 30 اکتوبر1976 کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف لنچ سے پہلے سنچری بنائی۔ فوٹو سوشل میڈیا
 ٹیسٹ کرکٹ کی 143 برس کی تاریخ میں صرف چھ بلے باز کھانے کے وقفے سے پہلے سنچری بنا سکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیسٹ میچ کے پہلے سیشن میں 100 کا ہندسہ عبور کرنا کسی دور میں بھی آسان نہیں رہا۔
محدود اوورز کی کرکٹ کے فروغ سے کھیل میں تیزی اور جارح مزاج کھلاڑیوں میں اضافے کے باوجود دورِ جدید میں ڈیوڈ وارنر اور شیکھر دھون ہی یہ اعزاز حاصل کر پائے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے ماجد خان نے 30 اکتوبر1976 کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں لنچ سے پہلے سنچری بنائی۔ ان سے پہلے یہ کارنامہ انجام دینے والے تینوں بلے بازوں کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔
ماجد خان سے 46 برس پہلے 1930 میں سر ڈان بریڈ مین نے لنچ سے پہلے سنچری بنائی تھی۔ان سے پہلے وکٹرٹرمپر(1902) اور چارلس میکارٹنی(1926) یہ اعزاز حاصل کر چکے تھے۔
ماجد خان کے 41 برس بعد آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ وارنر نے 2017 میں سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف پہلے سیشن میں سنچری کی۔  2018 میں شیکھر دھون نے  افغانستان کے خلاف لنچ سے پہلے سنچری بنائی۔

ماجد خان سے قبل یہ کارنامہ انجام دینے والے تینوں بلے بازوں کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ فوٹو سوشل میڈیا

ان خاص سنچریوں کے  اجمالی جائزے کے بعد ہم بڑھتے ہیں ماجد خان کی اننگز کے تذکرے کی طرف، جس کے بارے میں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ پی ٹی وی سے اس تاریخی اننگز کی ریکارڈنگ محفوظ کرنے کے معاملے میں غفلت ہوئی اور جس کیسٹ پر یہ ریکارڈ ہوئی اس پر کچھ اور ریکارڈ کر لیا گیا۔ قومی ٹی وی چینل کا یہ صرفہ شائقینِ کرکٹ کو خاصا مہنگا پڑا۔
ماجد خان ان کھلاڑیوں میں سے نہیں جو اپنے کارنامے بیان کرتے ہوئے پرجوش ہوجائیں یا انھیں بڑھا چڑھا کر بیان کریں۔ اپنی غیر معمولی کارکردگی کے بارے میں بھی وہ بڑے نارمل انداز میں بات کرتے ہیں۔ ان سے ایک ملاقات میں اس یادگار اننگز کا تذکرہ چھڑا تو انھوں نے بتایا  ’بس وہ میرا دن تھا اور ہر چیز میرے حق میں جارہی تھی، قسمت میرا ساتھ دے رہی تھی‘

اننگز کے شروع میں ان کا کیچ ڈراپ ہوا جس کا خمیازہ مہمان ٹیم کو پھر خوب بھگتنا پڑا۔ فوٹو گیٹی امیجز

اننگز کے شروع میں رچرڈ ہیڈلی کے دوسرے اوور میں ایک عمدہ ڈلیوری پر سلپ میں ان کا کیچ بھی نکلا جسے فیلڈر اپنے ہاتھوں میں محفوظ کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا خمیازہ مہمان ٹیم نے پھر خوب بھگتا۔ یہ چانس ملنے کے بعد بعد کیا فاسٹ بولر کیا سپنر، ماجد جان کی راہ میں کوئی مزاحم نہ ہوسکا۔ ’وزڈن ‘ نے اس اننگز کے بارے میں لکھا
His innings was packed with imperious hooks and fluent, effortless cover-drives
کرکٹ میں جارحانہ بیٹنگ کرنے والے بیٹمسین کے پارٹنر پر دباﺅ کم ہو جاتا ہے، ایک طرف وہ رن ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھنے کی فکر سے آزاد ہوتا ہے دوسری طرف  بولروں کی ہمت پست ہونے کا فائدہ بھی اسے ہوتا ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر مدثر نذر نے چار سال قبل ایک انٹرویو میں بتایا کہ’ماجد خان کے ساتھ اوپننگ کا یہ فائدہ تھا کہ وہ بولروں پر حاوی ہوجاتے جس سے ان کے ساتھی کھلاڑی کے لیے آسانی ہوجاتی‘

ماجد خان جب تاریخ رقم کر رہے تھے تو ان کے پارٹنر صادق محمد تھے۔ فوٹو سکرول لائن

 اس بات کا الٹ یہ ہے کہ اگر وکٹ پر موجود ایک بیٹسمین سست روی سے کھیل رہا ہو تو اس کے پارٹنر پر دباﺅ بڑھ جاتا ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف ماجد خان جب تاریخ رقم کر رہے تھے ان کے پارٹنر صادق محمد تھے۔ ماجد خان نے 70 رنز بنالیے تو صادق محمد نے انھیں باور کروایا کہ وہ لنچ سے پہلے سنچری بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے پھر انھوں نے کوشش کی کہ زیادہ تر ماجد ہی بولروں کا سامنا کر سکیں۔
ماجد خان نے 74 گیندوں پر 16 چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے سنچری سکور کی۔ پاکستان نے لنچ تک بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 141 رنز بنائے۔ ماجد خان 108 اور صادق محمد 30 رنز پر ناٹ آﺅٹ تھے۔ کھیل دوبارہ شروع ہوا تو ماجد خان 112 رنز بنا کر پویلین واپس لوٹ گئے۔
اس اننگز کا ذکر تھوڑی دیر کے لیے موقوف کرکے اس کا پس منظر معلوم کرتے ہیں۔

ماجد خان نے 74 گیندوں پر 16 چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے سنچری سکور کی. فوٹو سپورٹس کریزی

سنہ 1973 میں انگلینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں ماجد خان 99 رنز پر آﺅٹ ہوئے۔ دلچسپ بات ہے کہ اس میچ میں مشتاق محمد اور ڈینس ایمس نے بھی 99 رنز بنائے۔ تین کھلاڑیوں کے 99 پر آﺅٹ ہونے کی وجہ سے اسے ’99 ٹیسٹ‘ بھی کہا گیا۔
اس کے بعد ماجد سنہ 1974 میں اوول میں دو رنز کی کمی سے سنچری نہ بنا سکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ سے پہلے حیدر آباد ٹیسٹ میں وہ 98 رنز بنا پائے۔ نروس نائنٹیز کا شکار ہونے پر اخبارات میں ان پر جو تنقید ہوئی، اس پر ان کے ردعمل کا بھرپور اظہار کراچی ٹیسٹ میں ہوا۔
ماجد خان نے نیوزی لینڈ کے بولروں کو جو پھینٹی لگائی، اس سے وہ خاصے دباؤ میں آگئے جس کا فائدہ آنے والے بیٹسمینوں کو بھی ہوا۔ جاوید میانداد نے کیریئر کے تیسرے ٹیسٹ میں 206 رنز بنا ڈالے۔ کپتان مشتاق محمد نے بھی سنچری بنائی۔ ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں بھی ماجد خان کے ارادے ’خطرناک ‘ تھے لیکن بدقسمتی سے وہ 50 کے سکور پر رن آﺅٹ ہوگئے۔

شیئر: