Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایران میں کمانڈر کی ہلاکت کے بعد القاعدہ بحران کا شکار‘

ابو محمد المصر کو ایمن الاظواہری کے جانشین طور پر دیکھا جا رہا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں ایک اہم کمانڈر کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی قیادت بحران کا شکار ہے۔
اسرائیل کے جاسوسوں نے القاعدہ کے نمبر ٹو سمجھے جانے والے کمانڈر کو اگست کے مہینے میں ایران میں ہلاک کیا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عبداللہ احمد عبداللہ عرف ابو محمد المصری کے ہلاکت کی خبر القاعدہ کے لیے ایک دھچکا ہے۔
اس شدت پسند تنظیم نے امریکہ میں 11 ستمبر 2001 میں حملے کیے تھے۔  
کینیا کے شہر نیروبی اور تنزانیہ کے شہر تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کی برسی کے موقعے پر المصری کو تہران کی ایک گلی میں سات اگست کو ان کی بیٹی سمیت ہلاک کیا گیا۔
ہلاکت کے وقت تہران کے مضافات میں ابو محمد المصری اپنی بیٹی کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ان بم حملوں کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا، المصری دہشت گردی کے مقدمات میں ایف بی آئی کو مطلوب تھے۔
القاعدہ نے ابھی تک ان کی ہلاکت کا اعلان نہیں کیا، ایران نے اس واقعے کو مسترد کیا ہے جبکہ کسی بھی حکومت نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

تاہم امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے موجودہ اور سابق چار عہدیداروں نے المصری کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے نمبر ٹو سمجھنے والے کمانڈر کو ڈھونڈنے اور مارنے کے لیے اسرائیل اور امریکہ نے مل کر کام کیا۔
ان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو معلومات فراہم کیں کہ ان کو المصری کہاں مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جاسوسوں نے المصری کو ہلاک کیا۔
دیگر دو عہدیداروں نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کی لیکن مخصوص تفصیلات فراہم نہیں کر سکے۔
المصری کو ایمن الظواہری کے جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ان کی موت شدت پسند گروپ کے لیے ایک دھچکا ہے۔ ایمن الظواہری جو کہ اسامہ بن لادن کے جانشین تھے، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے ان کی بھی موت واقع ہو چکی ہو۔

اسامہ بن لادن ایک امریکی آپریشن میں ایبٹ آباد میں ہلاک ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے امور کی ماہر ڈاکٹر ہانی ناصرہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ابو امحمد المصری کی ہلاکت نے القاعدہ کی قیادت کے متعلق پھر سے سوال کھڑا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایمن الظواہری کے جانے کے بعد قیادت کے لیے القاعدہ میں قیادت کا بحران پیدا ہو گیا تھا۔
المصری 2003 سے ایران کی حراست میں تھے تاہم وہ 2015 سے ایران میں آزادی سے رہ رہے تھے۔
امریکی انسداد دہشت گردی کے حکام کے خیال میں ایران المصری کو زندہ رہنے دیتا اور ان کے ذریعے امریکی اہداف کے خلاف کارروائیاں کرتا۔
ان کی بیٹی کی شادی نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ بن لادن سے ہوئی تھی۔ ان کو بھی ایک امریکی آپریشن میں ہلاک کیا گیا تھا۔
ابو المصری کی ہلاکت کی خبر افغانستان میں مقامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہلاک کیے گئے دو سینیئر القاعدہ کے رہنماؤں کی ہلاکت کے چند ہفتوں بعد آئی ہے۔

اسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ کو بھی ایک آپریشن میں ہلاک کیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایک اور تجزیہ کار ڈاکٹر ایری کروگلینسکی کا کہنا ہے کہ قیادت سے متعلق بحران کے باوجود یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ القاعدہ ختم ہو گئی ہے۔
’اگرچہ القاعدہ نے اہم رہنما پاکستان، افغانستان اور ایران میں کھو دیے ہیں تاہم شام، یمن اور مغربی افریقہ میں ان کے اہم لوگ موجود ہیں جن کو قیادت سونپی جا سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ القاعدہ میں سو سے بھی کم افراد ایسے ہوں گے جو اس شدت پسند تنظیم کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔
’امریکہ القاعدہ، خاص طور پر اس کے سینیئر لیڈر شپ کا شکار کرتا رہے گا جنہوں نے نائن الیون کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا۔‘

شیئر: