Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نازیبا ٹرینڈز: ٹوئٹر اور حکومت ایکشن کیوں نہیں لیتے؟

مریم نواز کے خلاف بننے والے ٹرینڈ کے جواب میں خاتون اول کے خلاف ٹرینڈ بنا۔ فوٹو: اے ایف پی
اس ہفتے پاکستان میں ٹوئٹر پر یکے بعد دیگرے تین قابل اعتراض ٹرینڈز نے جہاں سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرنے والوں کی اکثریت کو صدمے سے دوچار کیا وہیں یہ سوال بھی ہر ذہن میں پیدا ہوا کہ آخر اتنی بڑی سوشل میڈیا کمپنی، حکومت اور سیاسی جماعتیں یہ سب روکنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں؟
اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ٹرینڈز گو کہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز بنے مگر ان کو ٹاپ چارٹ پر لانے میں دو سیاسی پارٹیوں کے صرف چند گنے چنے افراد ہی ملوث تھے۔ ان ٹاپ ٹوئٹر ٹرینڈز میں سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے انتہائی غیر مناسب زبان استعمال کی گئی تھی۔
سب سے پہلے بدھ کی صبح مسلم لیگ نواز کی رہنما کے خلاف ٹوئٹر پر نازیبا ٹرینڈ شروع ہوا جس کے کئی گھنٹے بعد جوابی ٹرینڈ میں خاتون اول کو نازیبا الفاظ کا نشانہ بنایا گیا۔
جبکہ تقریباً اسی وقت راولپنڈی کے حوالے سے بھی ایک نازیبا ٹرینڈ منظر عام پر آیا۔

نازیبا ٹرینڈز بنانے والے کتنے آدمی تھے؟ 

اردو نیوز نے اس حوالے سے سوشل سائنس ریسرچر رضوان سعید سے بات کی جو اس طرح کے ٹرینڈز پر تحقیق کرتے ہیں۔ رضوان سعید نے ان ٹرینڈز کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ اصل ٹرینڈ سیٹ کرنے والے لوگ کم تعداد میں ہوتے ہیں جبکہ باقی  لوگ ان ٹرینڈز کی بظاہر مذمت کے ٹویٹ کرتے ہیں مگر اسی مذمتی ٹویٹ میں ہیش ٹیگ وہی استعمال کرتے ہیں جس سے ٹرینڈ اور آگے بڑھتا ہے جبکہ چند لوگ معصومیت میں ہیش ٹیگ استعمال کر جاتے ہیں۔
رضوان کے مطابق  بدھ کو پہلا ٹرینڈ ان ٹوئٹر اکاؤنٹس نے شروع کیا جو ماض میں بھی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے حمایت میں اور حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف ٹرینڈز بناتے رہتے ہیں۔
ان کے مطابق مسلم لیگ نواز کی رہنما کے خلاف بنائے گئے ٹرینڈ میں یوں تو قریب 1900 لوگوں نے ٹویٹس کیں لیکن ذرا گہرا جائزہ لیا جائے تو اس میں 50 ایسے لوگ پیش پیش تھے جن کے نازیبا ہیش ٹیگز کے ساتھ کیے گئے ٹویٹس کی تعداد دس یا اس سے زائد تھی۔ رضوان کے مطابق اس ٹرینڈ میں تین یا چار ٹویٹس کرنے والے 240 لوگ تھے اور ان میں اکثر ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنے ٹوئٹر تعارف میں پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کی تھی۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف بننے والے جوابی ٹرینٖڈ میں بظاہر 1400 لوگ شریک ہوئے مگر سات یا آٹھ اکاؤنٹس ایسے تھے جن میں سے ہر ایک نے 100 سے لے کر 250 تک ٹویٹس کیں۔ رضوان کے مطابق ان میں مسلم لیگ نواز کے چند جانے پہچانے نام بھی شامل تھے۔ خاتون اول کے خلاف ٹرینڈ میں تین یا زائد ٹویٹ کرنے والے اکاؤنٹس کی تعداد 465 تھی جبکہ دس سے زائد ٹویٹس کرنے والوں کی تعداد 145 تھی۔
رضوان کے مطابق 2014 میں سب سے پہلے پی ٹی آئی نے اپنے سوشل میڈیا ونگ کو منظم اور متحرک کیا جس نے پارٹی کے حق میں اور دوسری جماعتوں کے خلاف ٹرینڈز بنانا شروع کیے۔ اس کے بعد مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے سوشل میڈیا ونگز بنائے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت یا ٹوئٹر اگر چاہے تو نازیبا ٹرینڈ بنانے والوں تک آسانی سے پہنچ کر اس عمل کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ ایک پرائیویٹ ریسرچر کے طور پر ان اکاؤنٹس تک پہنچ گئے ہیں جو ٹرینڈ بنانے میں ملوث ہیں تو سرکار اور کمپنیوں کے وسائل تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری کتنی ہے؟

انٹرنیٹ پر صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ سرمایہ کاری کرکے اپنی اپنی سائبر آرمی بنا رکھی ہے۔ ان کے پاس معاوضے پر کام کرنے والی ٹیمیں ہیں جن کو موبائل، کمپیوٹرز اور کیمرے وغیرہ بھی مہیا کیے گئے ہیں۔ جب آپ کے پاس مضبوط آرمی ہوتی ہے تو پھر اس کو سخت نظم و ضبط کا پابند بھی آپ نے کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے رولز آف انگیجمنٹ بھی بنائے جاتے ہیں اس لیے یہ  سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سائبر آرمیز کو کنٹرول میں بھی رکھیں اور سوشل میڈیا کلچر کو بہتر بنائیں۔ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں کیونکہ کارکن اپنے لیڈر کی تقلید کرتے ہیں۔ شہزاد احمد کے مطابق نازیبا ٹرینڈز کے بننے میں ان سیاسی جماعتوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگ ٹوئٹر کے رپورٹنگ سسٹم کو غلط طور پر استعمال کرکے مخالفین کے اکاؤنٹس بلاک کرتے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد نے کہا کہ خواتین کے خلاف نازیبا ٹرینڈز معاشرے کا عکس ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیلز نے اس طرح کی نازیبا زبان کو عام کر دیا ہے اور اب عام لوگ بھی سوشل میڈیا پر بے ہودہ زبان کے استعمال کو نارمل سمجھتے ہیں۔’سیاسی جماعتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔‘
نگہت داد کے مطابق ان نازیبا ٹرینڈز کا سیدھا حل ہے کہ سیاسی جماعتیں شفاف طریقے سے سوشل میڈیا ٹیمیں چلائیں۔  عوام کو بتائیں کہ یہ ہمارے سوشل میڈیا ٹیم ممبرز ہیں اور یہ ہمارا کوڈ آف کنڈکٹ ہے۔ اور پھر جو ممبر اس کوڈ کی خلاف ورزی کرے ان کو برطرف کریں تاکہ اس عمل کی حوصلہ شکنی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ بیہودہ ٹرینڈز کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے کے پاس بھی جائیں تو وہ ایکشن نہیں لیتا اور کہا جاتا ہے کہ اکاؤنٹس نامعلوم ہیں حالانکہ وہ حکومتی جماعت کے اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ ایسے میں کیسے یہ ٹرینڈز رک سکتے ہیں؟

خواتین ہی نشانہ کیوں؟

ٹوئٹر پر بننے والے نازیبا ٹرینڈز میں زیادہ تر خواتین کے خلاف بنائے جاتے ہیں۔ سوشل سائنس ریسرچر رضوان سعید کے مطابق ٹوئٹر ٹرینڈز میں بھی یہ پیٹرن نظر آتا ہے کہ کام کرنے والی خواتین کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کے ٹرینڈز میں مریم نواز کے خلاف کی گئی ٹویٹس کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔

عموماً نازیبا ٹرینڈز کی مذمت کرنے والے بھی ٹرینڈ کو آگے بڑھانے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ فوٹو: انسپلیش

پاکستان کی خواتین صحافیوں کو اکثر ٹوئٹر پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے خاتون صحافی بے نظیر شاہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ٹرولنگ سے پیغام دیا جاتا ہے کہ خواتین کمزور ہیں، خواتین جذباتی ہیں اور ان کا آسانی سے مذاق اڑایا جا سکتا ہے بغیر کسی محاسبے کے ڈر کے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے سوشل میڈیا ونگز کے لیے ضابطہ اخلاق بنائیں۔ اس طرح کا پیغام آنا بہت ضروری ہے اور سب سے اہم اور پرزور پیغام حکومت وقت کی جانب سے آنا چاہیے کیونکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرے۔ پی ٹی آئی کو مثال بن کر رہنمائی کرنی چاہیے مگر اب تک ایسا نہیں ہوا۔پہلے ہی اہم حکومتی عہدوں پر بہت کم خواتین ہیں اور کابینہ میں موجود خواتین وزرا کا بھی جذباتی کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔

ٹوئٹر انتظامیہ کی نااہلی یا بے حسی؟

نگہت داد کہتی ہیں کہ ٹوئٹر نے انگریزی زبان کے لیے خود کار نظام بنا رکھا ہے جس کے تحت نازیبا الفاظ والے ٹرینڈز خود بخود ختم کر دیے جاتے ہیں مگر غریب ملکوں کی زبانوں کے لیے سسٹم ہی نہیں بنے، اس لیے ٹرولز اردو میں بے ہودہ الفاظ پر مبنی ٹرینڈز بنا بھی دیتے ہیں اور چلا بھی دیتے ہیں جبکہ ٹوئٹر اس کو نوٹس ہی نہیں کرتا۔ انگریزی زبان میں اس طرح کی ٹویٹس کرنے والے اکاؤنٹس بھی معطل ہو جاتے ہیں اسی لیے ٹرولز اب اردو یا پنجابی میں ٹرینڈز بناتے ہیں۔
شہزاد احمد کے مطابق ان کی تنظیم اس طرح کے ٹرینڈزکے خاتمے کے لیے ٹوئٹر سے رابطے میں ہے تاہم انہوں نے ٹوئٹر کی انتظامیہ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے کردار کو مجرمانہ قرار دیا۔

رضوان سعید کے مطابق ٹوئٹر چاہے تو نازیبا ٹرینڈز کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ فوٹو: پکسابے

’یہ کمپنیاں اپنے رولز کے پیچھے چھپتی ہیں اور اہم کمزور آوازوں کو دبانے میں ملوث ہوتی ہیں۔ مثلاً اقلیتی اور کمزور طبقے کی نمائندہ تنظیموں کے افراد کے اکاؤنٹس کو ویری فائی کر کے بھی  فیک اکاؤنٹس کے ذریعےان کی جان کو لاحق خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے مگر کمپنیاں ایسا کرنے میں کوتاہی کرتی ہیں‘
اس کے علاوہ ٹوئٹر کو اردو زبان کے حوالے سے اپنے عملے میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ پاکستان جیسے ممالک میں بھی ان کا محاسبے کا نظام بہتر ہو۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ وہ انٹرنیٹ کو ضرورت سے زائد حکومتی قواعد میں نہیں لانا چاہتے کیونکہ اس سے اظہار رائے کی آزادی متاثر ہو گی اور حکومت شہریوں کی آوازوں کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

پی ٹی اے کیوں خاموش ہے؟

نازیبا ٹرینڈز کے حوالے سے ملک میں انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے کی جانب سے کوئی اقدام نہ لینے کے سوال پر  پی ٹی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ  اتھارٹی پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 37کے تحت ایکشن لیتی ہے مگر اس سیکشن میں سیاسی مواد یا سیاسی شخصیات کا ذکر نہیں ہے۔ پیکا ایکٹ کی سیکشن 37 کے تحت اسلام، ریاست، افواج اور عدلیہ مخالف مواد بلاک کیا جا سکتا ہے۔

شیئر: