Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکھوں کے مقدس شہر امرتسر سے سرگودھا تک

انڈین پنجاب کے شہر امرتسر کے معنی ’آبِ حیات کا تالاب‘ ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
منزل کی سمت کب سے سفر کر رہے ہیں ہم 
لیکن جو فاصلے تھے وہ اب تک نہ کم ہوئے 
شکوہ سنج شاعر نے اگر’گوگل میپ‘ استعمال کیا ہوتا تو باآسانی جان جاتا کہ راستے میں کتنے موڑ ہیں اور منزل تک فاصلہ کتنے کلومیٹر ہے۔ برصغیر میں ’کلومیٹر‘ سے پہلے ’میل‘ رائج تھا۔
 سڑک کنارے نصب رہنما پتھر’سنگ میل‘ کہلاتا، جب کہ تین میل کی مسافت ’فرسخ‘ کہلاتی تھی۔ یہ اصلاً فارسی کا فرسنگ (پرسنگ) ہے جو عربی میں ’فرسخ‘ ہوا اور اب اردو میں فرسودہ ہوچکا ہے۔ 
اس سلسلے کا ایک لفظ ’کوس‘ بھی ہے۔ دو میل کا ایک ’کوس‘ مانا گیا ہے۔ بادشاہ جب سفر پر نکلتے تو ایک پیمائشی پہیا ساتھ ہوتا جس کے چکروں کو شمار کرنے پر اندازہ لگایا جاتا کہ سفر کتنے ’کوس‘ ہوچکا ہے۔ 
اردو میں ’کالے کوس‘ اور’کڑے کوس‘ کی تراکیب اسی ’کوس‘ سے متعلق ہیں، جو بالترتیب دور دراز مسافت اور کٹھن سفر کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو’اخترالایمان‘ کا شعر ملاحظہ کریں: 
’کالے کوس‘ غمِ الفت کے اور میں نانِ شبینہ جُو 
کبھی چمن زاروں میں الجھا اور کبھی گندم کی بُو 
’کوس‘ کی ایک صورت ’کوہ‘ بھی ہے جو ظاہر ہے کہ ’س‘ کے ’ہ‘ سے بدلنے کا نتیجہ ہے۔ ماہر لسانیات ’احمد دین‘ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ’ڈسکہ‘ کے متعلق لکھتے ہیں: 
’ڈسکہ اصل میں دس کوہ ہے۔ چوں کہ یہ قصبہ سیالکوٹ، سمبڑیال اور گوجرانوالہ سے دس دس کوہ کے فاصلہ پر ہے اس لیے اس کا نام دس کوہ ہوگیا جو بدلتے بدلتے ڈسکہ بن گیا۔‘ 
بات سچ نہ بھی ہو تو بھی دلچسپ ضرور ہے کہ بہت سے قصبوں، شہروں اور خِطوں کے نام ایسی ہی نسبتوں سے متعلق ہیں۔ تاہم ’ڈسکہ‘ کے باب میں ’سمبڑیال‘ کے بجائے ’پسرور‘ اور ’وزیرآباد‘ کو شامل کریں تو بات میں وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ’گوگل میپ‘ دیکھیں، ’ڈسکہ‘ کو چار شہروں، گوجرانوالہ، وزیرآباد، سیالکوٹ اور پسرور کے تقریباً وسط میں پائیں گے۔  
مولوی سید احمد دہلوی کے مطابق ’کوس‘ کی اصل ہندی لفظ ’گوس‘ ہے، جو لفظ ’گوشبد‘ کی تخفیف ہے۔’گوشبد‘ کے لفظی معنی’گائے کی آواز‘ ہے۔ دراصل قدیم ہندوستان میں فاصلہ کے تعین کے لیے گائے کی آواز کو پیمانہ مانا گیا۔ جہاں تک یہ آواز پہنچی اُس مسافت کو ’گوشبد‘ کہا گیا۔ لفظ ’گوشبد‘ مختصر ہو کر پہلے ’گوس‘ ہوا اور پھر ’گ‘ کے ’ک‘ سے بدلنے پر ’کوس‘ پکارا
گیا۔ 

اہل عرب ’وینس‘ کو ’بندُقیہ‘ پکارتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

قدیم زمانے ہی میں فاصلے کی پیمائش کا اعتبار تیر کی مسافت سے بھی کیا جاتا تھا۔ بندوق کی ایجاد کے بعد تیر کی جگہ گولی نے لے لی۔ اب ’بندوق‘ کی رعایت سے سہارنپوری شاعر ’آثم پیرزادہ ‘ کا شعر ملاحظہ کریں: 
بندوق سے محبوبہ ہے سہمی ہوئی اتنی 
بیمار بھی ہوتی ہے تو گولی نہیں کھاتی 
بندوق کے ذکر نے ’بندُقیہ‘ پہنچا دیا جہاں سطح آب پر موجود گلیوں اور بازاروں کے بیج چھوٹی بڑی کشتیاں، رنگا رنگ بَجرے اور خوشنما ڈونگیاں گھومتی پھرتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ منظرتو اٹلی کے شہر ’وینس‘ کا ہے، یہ ’بندُقیہ‘ کہاں سے آگیا؟   
عرض ہے کہ جس طرح اہل یورپ ملک اُردن کو جارڈن (Jordan)، مصر کو ایجیپٹ (Egypt) اور شام کو سیریا ( Syria) کہتے ہیں ایسے ہی اہل عرب ’وینس‘ کو ’بندُقیہ‘ پکارتے ہیں۔ 
’وینس‘ جسے اطالوی زبان میں وینیزیا (Venezia) کہتے ہیں، لاطینی امریکی ملک ’وینزویلا‘ کا ہم رشتہ ہے۔ 1499ء میں اطالوی جہاز راں ’امریگو وسپوچی‘ جب اس خطے میں پہنچا تو یہاں جھیل ماراکایبو (Maracaibo) میں بنے مکانات نے اسے ’وینیزیا‘ کی یاد دلا دی، چنانچہ اُس نے اسے ’وینزویلا‘ کا نام دیا، جس کا مطلب ہے ’چھوٹا وینس‘۔ 
یہ’چھوٹا وینس‘ جس بڑے خطے میں واقع ہے اُسے ’امریگو وسپوچی‘ ہی کی نسبت سے ’امریکا‘ کہا جاتا ہے۔ ’امریکا‘ دو ہیں۔ ایک شمالی اور دوسرا جنوبی امریکا کہلاتا ہے۔

سب سے پہلے’لاطینی امریکا‘ کی اصطلاح اُنیسویں صدی میں فرانسیسی حکمران ’نپولین سوم‘ نے استعمال کی (فوٹو: ٹوئٹر)

جنوبی امریکا کو ’لاطینی امریکا‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے ’لاطینی امریکا‘ کہنے کی وجہ ’لاطینی زبان‘ سے نکلنے ہسپانوی، پرتگیزی اور فرانسیسی زبانیں ہیں جو اس خطے میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہیں۔ 
سب سے پہلے’لاطینی امریکا‘ کی اصطلاح اُنیسویں صدی میں فرانسیسی حکمران ’نپولین سوم‘ اور اس کے شریک تجارت ’فلیکس بیلی‘ نے استعمال کی۔ 
فرانس کا قریبی ملک ’پُرتگال‘ ہے، یہاں کی ’نارنگی‘ جب عربوں نے کھائی تو انہیں بہت بھائی اور عربی میں ’پرتگال‘ ہی کی نسبت سے ’برتغال‘ کہلائی۔ 
یہی حال ’مالٹا‘ کا ہے جو ہمارے یہاں بحیرہ روم کے جزیرے مالٹا (Malta) سے آیا اور اُسی رعایت سے ’مالٹا‘ پکارا گیا۔ 
برصغیر پاک وہند میں تُرشاوا (citrus) پھلوں کی بہت سی قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں موسمبی، سنگترا(سنترا)، کنّو، فروٹر،ریڈ بلڈ، چوکوترا، شکری، مٹّھا،کھٹّا اور نیبو (لیموں) شامل ہیں۔ ان کی کچھ اقسام مقامی زبان میں کولا، بِجورا اور کَدَر پَھل کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ 

کھٹے میٹھے ترشاوا پھولوں (citrus) کی پیداوار میں ’سرگودھا‘ دنیا بھر میں مشہور ہے (فوٹو: پکسا بے)

تاہم تاریخ و ادب میں اس پھل نے ترنج، نارنگ (نارنگی)، نارنج اور رنگترا کے نام سے جگہ پائی ہے۔ ’کبیر داس‘ کو ’نارنگی‘ نام پر اعتراض تھا جس کا اظہار اُس نے ان الفاظ میں کیا : 
رنگی کو ’نارنگی‘ کہے، بنے مال کو کھویا 
چلتی کو گاڑی کہے،  دیکھ   کبیرا  رویا 
رنگین مزاج مغل حکمران محمد شاہ رنگیلا کو خوش رنگ و خوش مزا پھل کا نام ’سنگترا‘ پسند نہ آیا، کہ نام میں ’سنگ‘ آتا ہے۔ چنانچہ اُس نے ’سنگ‘ کو ’رنگ‘ سے بدل کر اسے ’رنگترا‘ کا نام دیا مگر مغل حکومت کی طرح یہ نام بھی نہ چل سکا۔ 
کھٹے میٹھے ترواشا پھولوں (citrus) کی پیداوار میں ’سرگودھا‘ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں سرگودھا کا نام دو لفظوں ’سر‘ اور ’گودھا‘ سے مرکب ہے۔ ’سر‘ کے معنی تالاب اور ’گودھا‘ کے معنی ’سادھو‘ ہیں۔ چوں کہ اس تالاب کے پاس سادھو(گودھا) کا ڈیرا تھا، لہٰذا اس کی نسبت سے یہ ’سرگودھا‘ یعنی ’گودھا کا تالاب‘ قرارپایا۔  
تالاب کے معنی میں ’سر‘ کو آپ سکھوں کے مقدس شہر ’امرِتسر‘ کے نام میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نام بھی دو لفظوں’امرِت‘ اور’سر‘ سے مرکب ہے، جس کے معنی ’آبِ حیات کا تالاب‘ ہیں۔ اس تالاب (امرِت سر) کی بنیاد سکھوں کے چوتھے گرو رام داس نے رکھی تھی۔

شیئر: