Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ جلسہ ہے یا میلہ؟ لوگ جلسہ گاہ کے اندر کیوں نہیں جا رہے‘

جلسے کے شرکا کورونا سے متعلق سنجیدہ دکھائی نہیں دیے (فوٹو: اردو نیوز)
پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ بالآخر ہو ہی گیا، اور اس جلسے کے بارے میں اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کامیابی اور ناکامی کی ایک طویل بحث شروع ہو چکی ہے۔
کامیابی اور ناکامی کی بحث سے ذرا ہٹ کے کورونا کے دور میں یہ ایک بڑی سیاسی سرگرمی تھی جس میں پنجاب بھر سے آئے سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ 
جلسہ گاہ میں لوگ صبح 10 بجے کے بعد ہی آنا شروع ہو گئے تھے لیکن یہ ایسے لوگ تھے جو دور دراز کے علاقوں سے آئے تھے۔ 

پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے گھر ظہرانے کے بعد جب سٹیج سے اعلان ہوا کہ قائدین پہنچنے والے ہیں تو اس وقت ایک طرح سے جلسہ گاہ بھر چکی تھی۔

جلسہ گاہ کے داخلی راستوں پر جگہ جگہ کھانے پینے کی اشیا کے سٹالز لگے تھے اور ان میں رش تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
ایک ٹھیلے والے نے بتایا کہ ’سچی بات تو یہ ہے کہ جلسے تو ضرور ہونے چاہییں کیونکہ ایک دن میں جتنا سامان بک جاتا ہے ایک ایک ہفتے میں نہیں بکتا۔‘
جلسے کے شرکا کورونا سے متعلق کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیے۔ جنہوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے وہ بھی ٹھوڑیوں تک تھے، اور داخلی راستوں پر سب سے زیادہ ماسک بیچنے والے ہی نظر آرہے تھے۔ 
ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ جلسے کا کل وقت دس سے بارہ گھنٹے تھا۔ اس دوران جتنے لوگ جلسہ گاہ کے اندر جاتے دکھائی دیے اتنے ہی ہر وقت جلسہ گاہ کے باہر جاتے دکھائی دیتے رہے۔ لاہور کے ن لیگ کے روایتی ورکرز اسی طرح موٹر سائیکلوں پر کاغذی اور گتے کے شیروں کے مجسموں کے ساتھ ادھر سے ادھر جاتے اور بھاگتے دکھائی دیے۔ وہ جلسے کی تقاریر سننے سے زیادہ نعرے لگانے اور اپنی حاضری منوانے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیے۔ 

ن لیگ کے روایتی ورکرز موٹر سائیکلوں پر کاغذی اور گتے کے شیروں کے مجسموں کے ساتھ ادھر سے ادھر جاتے دکھائی دیے (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ بزرگ کارکن منچلوں کے اندر باہر جانے کو ناگواری سے دیکھ رہے تھے۔ ایک بزرگ تو زچ ہو کر کہہ رہے تھے کہ ’یہ جلسہ ہے یا میلہ لوگ ٹِک کے جلسہ سن ہی نہیں رہے۔‘
جلسے میں لاہوری رنگ بھر پور طریقے سے نظر آرہا تھا۔ شام کے بعد جیسے ہی خنکی بڑھی تو لوگوں کی آنیوں جانیوں کی حرکت بھی تیز ہو گئی کیوں کہ اب لہو گرم رکھنے کے لیے باضابطہ بہانہ دستیاب ہو گیا تھا۔ 
شیر شیر کے نعروں کے ساتھ مینار پاکستان کے اردگرد کی سڑکوں پر مقابلے جاری تھے اور اندر گراؤنڈ میں سیاسی بیانیوں کا مقابلہ جاری تھا۔ ساؤنڈ سسٹم کی نئی کمپنی نے ڈی جے بٹ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔  
جلسہ گاہ کے اندر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جگہ جگہ آگ جلا کر شدید سردی کو مات دینے کی کوشش جاری رکھی۔ البتہ سٹیج کے سامنے جن کارکنوں نے مورچہ سنبھالا ہوا تھا وہ مکمل چارج دکھائی دے رہے تھے اور جلسے کی سنجیدگی اور قیادت کی تقاریر پر سب سے زیادہ ری ایکشن وہی دے رہے تھے۔  

جلسہ گاہ کے اندر لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلا کر شدید سردی کو مات دینے کی کوشش کی (فوٹو: اردو نیوز)

جو لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ سے باہر جا رہے تھے زیادہ تر کا یہی کہنا تھا کہ وہ صبح سے بیٹھے ہیں بھوک لگی ہے کچھ کھانے جا رہے ہیں۔
شام کے قریب میٹرو بس سروس کو معطل کر دیا گیا تھا جس کے بعد لاہوری پیدل ہی ٹولیوں کی صورت میں مینار پاکستان گراؤنڈ کی طرف آجا رہے تھے۔
کچھ افراد اپنے بچوں کے ساتھ بھی آئے ہوئے تھے اور آزادی چوک میں واقع معلق پل پر ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جو دور سے جلسے کا نظارہ کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم جلسے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پانچویں بڑے جلسے میں تقریروں کی ترتیب پہلی بار بدلی گئی۔ اس سے پہلے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کی تقریر ہمیشہ سب سے آخر میں رکھی جاتی رہی لیکن لاہور جلسے میں قائد ن لیگ نواز شریف کی تقریر سب سے آخر میں رکھی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ سامعین اس تعداد میں جلسہ گاہ سے نہیں نکلے جیسے ماضی میں مولانا کی باری آنے پر نکل جاتے تھے، اور یہ بات بھی لاہور جلسے کی اہم ہے کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں وہ خاص نام بھی نہیں لیے جن پر پہلے بھی مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا۔البتہ اس بار ان کی تنقید چھپے لفظوں میں تھی۔

شیئر: