Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میرے مرنے کے ساتھ یہ کہانیاں بھی مر جائیں گی‘

محمد نسیم جب دور دراز علاقے میں ہمالیہ کی چوٹیوں کے درمیان بلندی پر واقع جھیل کی کہانی سنا رہے تھے تو ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
ان کے پاس بیٹھے کچھ لوگ ایسے شخص سے کہانی سن رہے تھے جو شاید پاکستان میں کہانی سنانے والے آخری افراد میں سے ہیں۔
جھیل سیف الملوک کی کہانی، ایک ایسی داستان جس میں ایک بہادر شہزادے کو ایک پری سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہ داستان بھی ان 50 داستانوں میں سے ایک ہے جو نسیم کو ان کے والد کی جانب سے منتقل ہوئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق محمد نسیم جو لمبی سفید داڑھی اور روایتی چغے کی وجہ سے پرانے وقتوں کے قصہ گو کی طرح دِکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’میں جب کہانیاں سناتا ہوں تو عام طور پر لوگ مجھے کہتے ہیں کہ اس کا دماغ خراب ہے۔‘
نسیم کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز اور ڈراموں کی وجہ سے ان کے بچے اور دوست ان کی کہانیاں سننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
پاکستان کے شمالی علاقے شوگران میں اپنی دکان کے باہر محمد نسیم نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ’جب مر جاؤں گا تو میرے ساتھ یہ کہانیاں بھی مر جائیں گی۔‘

قصہ خوانوں کا بازار

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کا قصہ خوانی بازار طویل عرصے سے کہانیاں سنانے کا ایک مضبوط گڑھ رہا ہے۔

قصہ خوانی بازار کو تاریخی اعتبار سے اہمیت حاصل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہ شاہراہ ریشم کا مرکز رہا ہے جہاں مسافر اور مقامی لوگ اکھٹے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں پاکستانی لوک ورثے کے ایک ماہر نعیم صافی کہتے ہیں کہ قصہ خوانوں کی وجہ سے پشاور اپنے خطے کا ٹائمز سکوائر تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت لکھنا زیادہ مشہور نہیں تھا، علم کی منتقلی زبانی تھی، کہانی سنانا بنیادی کام تھا، اگر لوگوں نے کافی کہانیاں سنی ہوئی ہوتیں تو وہ خود کو تعلیم یافتہ سمجھتے۔‘
نعیم صافی کے مطابق ’ہوسکتا ہے کہ کچھ قصہ گو موجود ہوں، تاہم قصہ سنانے کی روایت ختم ہو چکی ہے، یہ کہانی سنانے کی دیگر شکلوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔‘

قصہ خوانی کے قہوہ خانے اب بھی مشہور ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پشاور یونیورسٹی میں تاریخ اور لیٹریچر کے محقق علی اویس قرنی کہتے ہیں کہ لوگ ان قصہ خوانوں کو گھنٹوں تک سنتے، کبھی کبھی ایک قصہ ایک ہفتے یا ایک مہینے میں ختم ہوتا۔‘
پشاور کے 75 سالہ رہائشی خواجہ سفر علی کہتے ہیں کہ ‘قصہ خوان ان کو کابل، سابق سویت یونین، اور ازبکستان کے بارے میں بتاتے تھے۔ ہم نے ان ملکوں کے بارے میں ان سے جانا ہے۔‘
جدید ٹرانسپورٹ کے آنے سے قافلے ختم ہوگئے، قصہ خواں چھوٹے چھوٹے حلقوں میں قصے سناتے تاہم آہستہ آہستہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے ان کی جگہ لے لی۔

شیئر: