Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور کا ’تھری ڈی‘ سینما ماحول بدل رہا ہے

سینما کے اس بڑے ہال میں جہاں سب سے بڑی سکرین نصب ہے، چند گنے چنے لوگ بہت انہماک سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وقفے وقفے سے ان کے قہقہے بلند ہوتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے کان میں کچھ سرگوشیاں کرتے ہیں۔
یہ پشاور کا واحد ’تھری ڈی‘ سینما ہے جس کا تازہ تازہ افتتاح ہوا ہے، آج یہ لوگ یہاں پاکستانی فلم ’رانگ نمبر 2‘ کا اتوار کا خصوصی شو دیکھنے آئے ہیں۔
افتتاح کے روز سے ہی سوشل میڈیا پر اس سینما کا چرچا ہو رہا ہے، جس کے بعد لوگ شہر میں میسر آنے والی اس نئی سہولت کو دیکھنے آ رہے ہیں۔
مجھے اس بارے میں علم ہوا تو میں بھی جائزہ لینے چلی گئی۔ اس وقت ہال میں فلم جاری تھی، میں جا کر دائیں جانب بیٹھ گئی جس پر وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے کہا کہ ’خواتین کے لیے اوپر والا الگ لاؤنج ہے آپ وہاں جا کر بیٹھ جائیں‘۔ جیسے ہی میں اٹھی تو فلم بین مجھے حیرانی سے دیکھنے لگے۔ 
فلم میں وقفے کے دوران باہر گئی تو مردوں سے بات کی کہ ’تھری ڈی‘ سینما پر ان کا کیا خیال ہے؟
خیبر ایجنسی کے ایک نوجوان نے کیمرے پر آنے سے انکار کیا اور نہ ہی نام بتایا تاہم کہنے لگا کہ ’دور جانے سے بہتر ہے اب پشاور میں قریب ہی ہمیں ایک اچھا سینما میسر آ گیا۔‘
اس کے ساتھ ہی ایک شخص موبائل فون پر کسی کو بتا رہا تھا کہ ’پشاور میں بھی ’سینی پیکس‘ آ گیا ہے، میں آج ادھر ہی آیا ہوں۔‘
سینما کے مالک جواد رضا جو ہال کے باہر تزئین و آرائش کے کام کی نگرانی کر رہے تھے، نے اردو نیوز کو بتایا کہ جدید سینما ٹیکنالوجی لگانے کی وجہ یہ تھی کہ ’پشاور کے ماحول کو تبدیلی کی ضرورت تھی۔‘

’دور جانے سے بہتر ہے اب پشاور میں قریب ہی ہمیں ایک اچھا سینما میسر آ گیا‘

پشاور کے اندرون شہر میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور قلعہ بالا حصار کے قریب واقع یہ ’ناز سینما‘  پہلی مرتبہ 1930 کے اوائل میں بنا تھا جس کو جواد رضا کے دادا نے 1942 میں کمار نامی ایک سکھ سے خریدا تھا جن کے بچے آج کل امریکہ میں رہ رہے ہیں۔
’ناز سینما‘ سمیت پشاور میں تقریباً 15 سینما تھے جو کہ اب کم ہو کر صرف پانچ رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر سنیماؤں کی جگہ پلازے بن گئے ہیں۔
جو سینما باقی ہیں وہاں بھی ماحول ایسا نہیں کہ عام لوگ تفریح کی غرض سے جا کر فلمیں دیکھیں۔ جب کہ خواتین کا سینما جا کر فلم دیکھنے کے بارے میں تو سوچنا بھی محال تھا۔
حالانکہ تین دہائیاں پہلے پشاور کی خواتین نہ صرف  سینما میں فلمیں دیکھتی تھیں بلکہ ان کے لیے بدھ کا دن مخصوص ہوتا تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس کا رجحان مدھم ہوتا گیا اور خواتین نے سینما گھروں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا جس کی واحد وجہ وہاں کا ماحول اور نامناسب قسم کی فلمیں تھیں۔
جواد کا کہنا ہے کہ ’یہ ساری صورتحال دیکھ کر وہ گذشتہ کئی برسوں سے اپنے سینما کو بہتر بنانے اور یہاں جدید سسٹم لگانے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔‘
’پشاور میں تفریح کی کمی ہے، یہاں کے لوگوں کو تفریح چاہیے۔‘

’ناز سینما‘ سمیت پشاور میں تقریباً 15 سینما تھے جو کہ اب کم ہو کر صرف پانچ رہ گئے ہیں

’سانس تو تفریح سے آتی ہے، پارک کھلنے چاہئیں، سینما کھلنے چاہئیں۔ اس دباؤ کے ماحول میں انسان کو تفریح چاہیے اور یہ تفریح پارکس اور سینما فراہم کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مجھے دیکھتے دیکھتے مزید (اچھے) سینما کھلیں گے۔‘
جواد رضا نے بتایا کہ ان کا سینما کھلنے سے پہلے لوگ اچھی فلمیں دیکھنے اسلام آباد یا ملک کے دیگر شہروں میں جاتے تھے۔
’جب میں نے سینما کھولا تو لوگوں کا اچھا ردعمل آیا، پوچھتے ہیں کہ آیا صاف ستھرا ماحول ہے؟ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا خواتین آ سکتی ہیں؟ اب میرے خیال میں لوگ اسلام آباد فلمیں دیکھنے نہیں جائیں گے بلکہ وہ اپنے شہر میں دیکھیں گے۔‘
ناز سینما کے مالک کہتے ہیں کہ ’ان کے پاس خواتین کے لیے الگ ہال ہیں تاہم وہ خواتین کے لیے دن مخصوص نہیں کرنا چاہتے۔‘
’میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس بات کو تسلیم کریں کہ فیملیز بھی آ سکتی ہیں میں ان کو اچھا ماحول دے رہا ہوں۔‘

’جب میں نے سینما کھولا تو لوگوں کا اچھا ردعمل آیا، پوچھتے ہیں کہ آیا صاف ستھرا ماحول ہے؟‘

پشاور میں پہلے تھری ڈی سینما کے بارے میں شبقدر کے شہزاد عالم کہتے ہیں کہ ’وہ خوش ہیں کہ اب پشاور میں ایک صاف ستھرا سینما گھر دستیاب ہے۔‘
’کم عمری ہی سے سینما کا شوقین ہوں، میں فلم دیکھنے اسلام آباد اور راولپنڈی جاتا تھا، پشاور کے عام سینما گھروں اور اس تھری ڈی میں بہت فرق ہے، وہ اس لیے کہ پشاور کے سینما گھروں کا کلچر مختلف ہے۔ میں اس کو سینما نہیں بلکہ چرس کے اڈے کہتا ہوں۔ وہاں آپ آسانی سے چرس پی سکتے ہیں سگریٹ کا استعمال کر سکتے ہیں، وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں وزیر ثقافت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کا نوٹس لیں، وہاں 14 برس سے کم عمر کے لڑکے سگریٹ پی رہے ہیں۔ فلمیں بھی ان ہی چیزوں پر بنتی ہیں۔‘
ناز سینما کے سکیورٹی گارڈ ارشد گل کا نہ صرف بچپن سینما میں گزرا بلکہ ان کا روزگار بھی انہی سینما گھروں سے جڑا ہوا ہے۔

’یہاں پر لڑکیاں بھی آ سکتی ہیں، کچھ دن پہلے دو لڑکیاں آئیں اور فلم دیکھ کر چلی گئیں‘

ارشد کے مطابق انہوں نے یہاں کے ماحول کو کافی بہتر دیکھا ہے ’یہاں میں تہذیب یافتہ لوگوں کو دیکھتا ہوں۔ دوسرا سینماؤں میں ایسے لوگ آتے تھے جو وہاں چرس سگریٹ پیتے تھے، وہاں لڑائی جھگڑا دیکھا اور ایک دفعہ تو فائرنگ بھی دیکھی۔‘
’یہاں پر لڑکیاں بھی آ سکتی ہیں، کچھ دن پہلے دو لڑکیاں آئیں اور فلم دیکھ کر چلی گئیں، جیسا ماحول ہوتا ہے لوگ ویسے اثر لیتے ہیں، اُس ماحول میں چرس وغیرہ اور مار دھاڑ تھی ہم بھی یہی سمجھے کہ یہاں بھی یہی ہے سب کچھ لیکن یہاں آ کر ایک مختلف ماحول دیکھا۔‘
جواد رضا نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ایسی باتیں سن کر انہیں خوشی ہوتی ہے۔ ’لگتا ہے کہ میں کامیاب ہو رہا ہوں۔‘

شیئر: