Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محمد عامر: اُدھر ڈوبا ادھر نِکلا اور پھِر ڈُوب گیا

شعیب اختر کے مطابق اگر عامر ان کے ساتھ دو ماہ ٹریننگ کر لیں تو وہ ان کی بولنگ بہتر بنا دیں گے (فوٹو: ٹوئٹر)
محمد عامر۔۔۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کرکٹ کا ایسا نام جو کبھی آسمانوں کی بلندیوں پر جگمگاتا رہا اور کبھی شرمندگی کی پستیوں میں غوطہ زن رہا۔ بالآخر دلبرداشتہ ہو کر قومی کرکٹ سے رستے جدا کر گیا۔ 
محمد عامر نے 2009 میں بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز کیا تو آتے ہی اپنا لوہا منوا لیا۔ ان کی شکل میں کرکٹ ماہرین اور پاکستانی شائقین کو ایک نیا وسیم اکرم ابھرتا ہوا نظر آیا۔
خود وسیم اکرم نے انہیں پاکستان کرکٹ کا روشن مستقبل قرار دیا اور دیگر کئی ماہرین کے مطابق محمد عامر نے اپنے کیریئر کا آغاز وہاں سے کیا جہاں سے بین الاقوامی کرکٹ میں کل 460 میچوں میں 916 وکٹیں لینے والے وسیم اکرم نے اختتام کیا تھا۔
 
لیکن جب محمد عامر نے بین الاقوامی کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کیا تو اس وقت انہوں نے محض 147 میچوں میں 259  وکٹیں حاصل کی تھیں۔
گو کہ پاکستان میں ٹیم مینجمنٹ اور کرکٹ بورڈ سے اختلافات کے باعث ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا اور پھر اس اعلان کو واپس لینا ایک معمول کی بات ہے اور اسی معمول کی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ نے فوری طور پر محمد عامر کی ریٹائرمنٹ کی تصدیق کردی ہے وہیں محمد عامر کے مداح ان سے اس اعلان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لیکن درحقیقت محمد عامر کی شاندار صلاحیتیں اور چمکتا کیریئر تو اسی وقت ماند پڑ گیا تھا جب 2010  کے دورہ انگلینڈ کے دوران فاسٹ بولر محمد آصف اور کپتان سلمان بٹ کے ساتھ ان پر سپاٹ فکسنگ کا الزام لگا۔
اس واقعے میں ملوث ہونے کی بنا پر پانچ سال کی پابندی بھگتنے کے بعد وہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آئے تو ناقدین اور مداحوں کو پتا چل گیا تھا کہ وہ محمد عامر جس نے اپنے بین الاقوامی کیریئر کے آغاز پر ہی اپنی رفتار، سوئنگ اور یارکرز سے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا، وہ اپنی مہارت اور فٹنس، پابندی کے ایام میں ہی کہیں پیچھے چھوڑ آیا ہے۔

محمد عامر کے مداح ان سے کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن اس کے باوجود محمد عامر وقتاً فوقتاً اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرتے رہے اور کئی مواقع پر انہوں نے پاکستانی ٹیم کے لیے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بالخصوص 2017 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں لندن میں انہوں نے انڈیا کے تین مایہ ناز بیٹسمینوں وراٹ کوہلی، شیکھر دھون، اور روہت شرما کو آؤٹ کر کے چھ اوورز میں محض سولہ رنز کے عوض تین وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کی تاریخی جیت کی راہ ہموار کی۔
جب محمد عامر پابندی کے بعد اس وقت کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی اور شاہد آفریدی کی ذاتی کوششوں سے ٹیم میں واپس آئے تو ان کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی کارکردگی کی بدولت ٹیم میں دوبارہ جگہ مستحکم کرلیتے کیونکہ اس وقت پاکستان کرکٹ کے قومی منظر نامے پر باصلاحیت فاسٹ بولرز کی شدید مانگ تھی۔
لیکن بعد میں آنے والے برسوں میں پی ایس ایل کی بدولت پاکستان میں دوبارہ سے فاسٹ بولرز کی لائن لگتی گئی اور ایسے میں فٹنس مسائل کا شکار محمد عامر واحد سٹرائیکنگ بولر کی پوزیشن برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔

’متعدد کرکٹرز محض اس لیے کھیل کو خیرباد کہہ گئے کہ وہ ٹیم میں آنے کے بعد ذہنی دباؤ کا سامنا نہیں کرسکے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کی کارکردگی متاثر ہوئی تو نہ صرف ٹیم مینجمنٹ نے ان سے آنکھیں پھیر لیں بلکہ مداحوں کی طرف سے بھی کارکردگی دکھانے کا دباؤ بڑھتا گیا جس کو عامر آج ’مینٹل ٹارچر‘ کا نام دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی سی بی نے ان کے کم عمر ہونے کی وجہ سے نہ صرف ہر فورم پر ان کا بھرپور دفاع کیا بلکہ ان کو کارکردگی بہتر بنانے کے لیے خوب مواقع بھی دیے۔ 
ان حالات میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور عامر کرکٹ بورڈ میں اپنی رہی سہی ہمدردیاں بھی کھو بیٹھے۔ 
اپنے پورے کیریئر میں تنازعات کا شکار رہنے والے اور درجنوں مرتبہ ٹیم سے باہر اور اندر آنے والے فاسٹ بولر شعیب اختر کا کہنا ہے کہ محمد عامر نے اس صورت حال کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا اور ’مینٹل ٹارچر‘ نہ صرف عامر کا کیا گیا ہے بلکہ پاکستانی ٹیم کے ہر کھلاڑی کا ہوتا ہے۔
 اپنے یو ٹیوب چینل پر محمد عامر کی ریٹائرمنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب اختر کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم میں رہنے کے لیے نہ صرف کھلاڑیوں کو میدان میں اپنی کارکردگی دکھانا ہوتی ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی مضبوطی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے متعدد کرکٹرز محض اس لیے کھیل کو خیرباد کہہ گئے کہ وہ قومی ٹیم میں آنے کے بعد ذہنی دباؤ کا درست انداز میں سامنا نہیں کر سکے۔
شعیب اختر نے عامر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ان کی جگہ ہوتے تو ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے کے بجائے وہ میدان میں اپنی کارکردگی بہتر بنا کر ناقدین کو جواب دیتے۔

2010  کے دورہ انگلینڈ کے دوران محمد آصف اور کپتان سلمان بٹ کے ساتھ عامر پر سپاٹ فکسنگ کا الزام لگا (فوٹو: اے ایف پی)

شعیب اختر نے یہ بھی کہا کہ اگر محمد عامر ان کے ساتھ محض دو ماہ ٹریننگ کر لیں تو وہ نہ صرف ان کی بولنگ بہتر بنا دیں گے بلکہ انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بھی بنا دیں گے۔
دوسری طرف محمد عامر کو دنیا بھر سے مختلف کرکٹ لیگز کھیلنے کی پیش کش کر رہی ہیں اور ان کے اپنے فائدے میں ہے کہ وہ پاکستان کی قومی ٹیم میں انتخاب کے انتظار کے بجائے پوری توجہ سے لیگ کھیلیں تاکہ اپنی بچی ہوئی کرکٹ صلاحیتوں کے عوض وہ زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ہر شاندار کھلاڑی کے کیریئر کا اختتام تنازعے پر ہی ہونا ہے؟ ریٹائرمنٹ لینی ہو یا لے کر ’واپس لینی‘ ہو ایسے ہر عمل کا فیصلہ کرکٹ بورڈ اور کھلاڑی بیٹھ کر افہام و تفہیم سے بھی کر سکتے ہیں۔

شیئر: