Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان نیوزی لینڈ سیریز: ’ہمیں انگوٹھے اچھے نہیں ملے‘

’ہماری آدھی سے زیادہ ٹیم نیوزی لینڈ میں کورونا پازیٹو نکلی۔‘ (فوٹو: پی سی بی)
اور وہ دن واپس آ گئے جب کرکٹ دیکھنے کے لیے صبح تین بجے کا الارم لگایا کرتے تھے۔ نیند کے نشے میں صرف ایک آنکھ کھول کر دیکھتے تھے کہ ٹاس کون جیتا ہے۔ پھر آدھا گھنٹہ میچ دیکھ کر دو گھنٹے بعد کا الارم لگا کر سوتے تھے صرف یہ دیکھنے کے لیے پوری ٹیم آؤٹ تو نہیں ہو گئی یا فالو آن تو نہیں کرنا پڑ گیا۔ 
جی ہاں نیوزی لینڈ اور پاکستان کی سیریز کا موسم آ گیا ہے۔ 2011۔2010 کے دسمبر اور جنوری میں یہ سیریز جب ہوئی تھی تو مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں صبح تین بجے ہیڈ فون ٹی وی پر لگا کر پڑی رہتی تھی۔ جب بھی کوئی اپیل کرتا تھا تو میرا تراہ نکل جاتا تھا اور میں جاگ جاتی تھی کہ بھائی کیا ہوا، کون گیا، ہار گئے، فالو آن ہو گیا؟ لیکن میری اس ساری خوشی پر ٹیم نے پہلے ہی پانی پھیر دیا ہے۔ اب میں اس سیریز کے صرف منسوخ ہونے کا انتظار کر رہی ہوں۔ بھلا کیوں؟
تین ٹی 20  اور دو ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کے آغاز سے پہلے بابر اعظم، جن کوعام زبان میں ’بوبی‘ اور  کرکٹ کا ’شہنشاہِ عالم‘ کہتے ہیں، نے پریس کانفرنس میں بہت پازیٹیو تصویر کھینچی۔ اتنی پازیٹیو تصویر کھینچی کہ ہماری آدھی سے زیادہ ٹیم نیوزی لینڈ میں کورونا پازیٹو نکلی۔ پاکستان میں جس لیب نے ان کھلاڑیوں کے ٹیسٹ کیے ہیں یقیناً وہ بھی ہماری طرح بیتاب ہوں گے کہ کرکٹ ہو جائے، کورونا کو بھی دیکھ لیں گے۔ 

 

اس عجیب و غریب کورونا ٹیسٹنگ کے بعد ہماری ٹیم نے آئسولیشن کی بھی خلاف ورزی کی۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ نیوزی لینڈ کی انتظامیہ نے ہماری ٹیم کو دھمکی لگا دی کہ اب باہر آئے تو پاکستان واپس بھیج دیں گے۔ یہ ایسے ہے جیسے ماں اپنے بچے کو کسی بات سے منع کرے لیکن بچہ وہی کرتا رہے اور بلآخر ماں بچے کو باتھ روم میں بند کرنے کی دھمکی دینے پر مجبور ہو جائے۔
جب ٹیم کی کورونا سے جان چھوٹی اور ان کو پریکٹس کی اجازت ملی، تو ہماری آدھی سے زیادہ ٹیم زخمی ہو گئی۔ جیسے کہ وزیرِاعظم پاکستان کہتے ہیں کے انھیں ٹیم اچھی نہیں ملی۔ اسی طرح ہماری ٹیم کو انگوٹھے ٹھیک نہیں ملے۔ پریکٹس کے دوران ہمارے کپتان بابر اعظم اپنا انگوٹھا فریکچر کروا چکے ہیں اور وہ 12 دن صرف نیوزی لینڈ کے نظارے دیکھیں گے۔ ان کے ساتھ ہی امام الحق بھی اپنا انگوٹھا تڑوا چکے ہیں۔ اور ہمارے شاداب خان بھی ایک انجری کے ہاتھوں مشکل میں ہیں۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا بابر اعظم ہوتا ہے۔ اور ہمارا بابر اعظم ہی نہیں رہا تو ہم نیوزی لینڈ میں کیا لیں گے اب؟
بابر اور امام کی جگہ کس کھلاڑی کو بھیجا جائے؟ بیٹنگ کا ایسا فقدان ہے کہ میرے دماغ میں عمر اکمل، کامران اکمل اور آخر میں فردوس عاشق اعوان بھی آ گئیں۔ مجھے بابر اعظم کے بعد موجودہ سکواڈ میں حیدر علی سے توقع رہ گئی ہے۔ اگر پچ زیادہ سکور کرنے والی ہوئی، اور حیدر نے 10 بال پر 50 رنز نہ بنائے تو میں ان کا نام بدل کر حفیظ رکھ دوں گی۔ جس سے یاد آیا ہمارے ٹی 20 سکواڈ میں حفیظ بھی ہیں۔ جیسے عثمان بزدار ہمیشہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہیں گے، اسی طرح حفیظ بھی ٹیم میں رہیں گے۔ 
خوش قسمتی سے ان کا کچھ اچھا ٹائم چل رہا ہے ٹی 20 میں۔ وہ اس وقت جب بابر اعظم بھی نہیں ہیں، پھر وہی ٹک ٹک کرتے رہے، تو ان کو واپس بلا کر عثمان بزدار کی کیبنیٹ میں ہی نوکری دے دیں۔ خوشدل شاہ اس بار نیشنل ٹی20 ٹورنا منٹ میں کافی اچھا کھیلے۔ ان کا پرفارم کرنا ضروری ہے۔ حالات یہ ہیں کہ اب ہمیں اپنا ایک کھلاڑی دو دفعہ بھیجنا پڑے گا تاکہ سکور بن سکے۔

ہماری ساری بولنگ کا ایک ہدف ہوگا اور وہ ہے کین ولیمسن کی وکٹ (فوٹو: پی سی بی)

جہاں تک بولنگ کا تعلق ہے تو علامہ اقبال کا سب سے زیادہ نام روشن کرنے والے شاہین شاہ آفریدی اپنی زندگی کی بہترین فارم میں ہیں۔ پاکستان کی جیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاور پلے میں زیادہ سے زیادہ وکٹیں حاصل کریں۔ ان کا ساتھ دیں گے حارث رؤف اور وہاب ریاض۔ یہ دونوں میچ کے آخری اوورز میں، جس میں ہم کیچ ڈراپ کر کے اگلی ٹیم کو جتوانے کی کوشش کر رہے ہوں گے، زیادہ کارآمد ثابت ہوں گے۔ 
ہماری ساری بولنگ کا ایک ہدف ہوگا اور وہ ہے کین ولیمسن کی وکٹ۔ ولیمسن نہ خود آؤٹ ہوتے ہیں، نہ کسی کے ہاتھوں آؤٹ ہوتے ہیں۔ وہ اصل میں آؤٹ ہی نہیں ہوتے، وہ رہتے ہی پچ پر ہیں۔ بات سیدھی سی ہے۔ یا کین ولیمسن جلدی آؤٹ ہو یا ہماری ٹیم جلدی پاکستان واپس آ جائے۔
جس قسم کا آغاز پاکستانی ٹیم کر رہی ہے، اس سے بہتر تو ہمارے وزیرِاعظم کی حکومت کا پہلا دن تھا۔ میری کیا امیدیں ہیں؟ فی الحال تو میری پوری دعا ہے کے ہم کم از کم ٹاس ہی جیت جائیں کیونکہ میچ کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ہاں ایک یقینی بات ہے کہ اگر ہم ہارے تو ایسے انوکھے انداز سے ہاریں گے کہ وہ بھی ایک کامیابی ہی لگے گی۔ 
اگر آپ کورونا کے باعث گھر پر ہوں گے تو کوشش کریں میچ کے شروع ہونے کے گھنٹے بعد کا الارم لگا کر اٹھیں۔ اگر آپ دفتر میں ہیں تو میچ نہ دیکھنا ہی آپ کے لیے بہتر ہے۔ فیصلہ آپ کا۔ آخر میں بس سے یہی کہوں گی:
اک نعرہ لگانا چاہتی ہوں 
میں ٹیم کو بچانا چاہتی ہوں
بابر کو انگوٹھا دو 
امام کو انگوٹھا دو 
 

شیئر: