Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: ’لو جہاد‘ کا خاتمہ ’پسند کی شادی کا حق چھیننے کی کوشش ہے‘

ریاست اتر پردیش تبدیلی مذہب مخالف قانون نومبر میں نافذ کیا گیا۔ فوٹو فری پک
انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ملک سے ’لو جہاد‘ کے مکمل خاتمے کے نئے عزم کے بعد متعدد مسلمان مردوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
’لو جہاد‘ کی اصطلاح ہندو قوم پرست تنظیموں نے متعارف کرائی تھی جو مسلمان مردوں کی ہندو خواتین کے ساتھ شادی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہندو تنظیموں کا خیال ہے کہ مسلمان مردوں کا ہندو عورتوں سے شادی کرنے کا مقصد ان کا مذہب تبدیل کر کے قومی سطح پر مسلمانوں کا تسلط قائم کرنا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ریاست اترپردیش میں لو جہاد کے خلاف بننے والے قانون کے تحت نو بیاہتا جوڑوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چند ہفتے قبل 22 سالہ مسکان اور ان کے مسلمان شوہر راشد جب اپنی شادی رجسٹر کروانے سرکاری دفتر گئے تو انہیں جیل میں بند کر دیا گیا جبکہ مسکان کو سرکاری شیلٹر ہوم بھجوا دیا گیا۔
مسکان نے اے ایف پی کو بتایا کہ حاملہ ہونے کے باوجود شیلٹر ہوم میں ان سے اتنا کام کروایا گیا کہ ان کا بچہ ضائع ہو گیا۔
مسکان کے اپنے مسلمان شوہر راشد کے خلاف کوئی بیان نہ دینے پر پولیس کو انہیں قید سے رہا کرنا پڑا۔
اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے خلاف نافذ ہونے والے نئے قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو دس سال تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔
قانون سازی کے بعد انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں جو 2014 سے بی جے پی کی ہندو نواز پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

نئے قانون کے خلاف انڈیا کی کئی ریاستوں میں مظاہرے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

وزیراعظم نریندر مودی کی ہندوتوا پالیسی پر سب سے زیادہ اتر پرددیش میں عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے جو دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی بہت پیچھے ہے۔
اترپردیش کے 48 سالہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سخت گیر ہندو نظریات کے حامل ہیں جو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے نئے قانون کے تحت لو جہاد کے مکمل طور پر خاتمے کا عہد کیا ہے۔
ہندوتوا تنظیموں کے خیال کے برعکس ایسا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں ہے کہ کسی منظم کوشش کے تحت ہندو خواتین کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ انڈیا پر مسلمانوں کا تسلط قائم کیا جا سکے۔
قانون نافذ ہونے کے چند ہفتوں میں ہی درجنوں مسلمان مردوں کو لو جہاد کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے جس کے لیے پولیس کو کسی قسم کی وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دلہن کے رشتہ داروں کی شکایت کی بنیاد پر بھی پولیس مسلمان مردوں کو گرفتار کرنے کا حق رکھتی ہے۔

بی جے پی کے خیال میں لو جہاد سے مسلمان تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ خواتین سے زبردستی بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان شوہر کو گرفتار کیا جا سکے۔
بی جے پی دیگر ریاستوں میں بھی تبدیل مذہب کا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جہاں پر یہ اکثریت میں ہے۔
سماجی کارکن اور وکیل ورندا گروور نے اے ایف پی کو بتایا کہ بی جے پی کا لو جہاد کے خلاف نئی مہم خواتین کو اس حق سے محروم کر رہی ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں شادی کریں۔

شیئر: