Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترقی کے لیے آگے جائیں یا پیچھے؟

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت نے ’گاؤ کابینہ‘ تشکیل دی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈیا میں آج کل یہ طے کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے آگے کی طرف ہی بڑھنا ضروری ہے یا پیچھے کی طرف جانے سے بھی کام بن جائے گا اور آپ بھی انجام کار وہیں پہنچ جائیں گے جہاں ترقی کی تلاش میں باقی دنیا پہنچنا چاہتی ہے۔ 
بھائی اس کا جواب کافی آسان ہے۔ آپ کسی بھی راستے پر اگر ناک کی سیدھ میں چلتے جائیں تو کہیں نہ کہیں ان لوگوں سے ملاقات ہو ہی جائے گی جو اسی راستے پر لیکن دوسری سمت میں نکل پڑے تھے۔ تھوڑی دیر سویر تو چلتی ہے۔ کچھ ہزار سال ادھر یا ادھر۔
اگر ملاقات ہوجاتی ہے تو دنیا واقعی گول ہے۔ اگر نہیں ہوتی تو نہیں ہے۔ یا ہو سکتا ہے کہ جی پی ایس کا سگنل کہیں دھوکہ دے گیا ہو، جہاں ہزاروں سال کا سفر ہو، ایسے لمبے راستوں پر ایک بھی غلط موڑ لیا نہیں کہ دو چار صدی کہاں چلی گئیں پتا بھی نہیں چلتا۔

 

آپ نے اکثر انڈیا میں کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ جو مغربی دنیا آج کر رہی ہے وہ ہم دس ہزار سال پہلے کر رہے تھے۔ انٹرنیٹ؟ اننٹرنیٹ نہ ہوتا تو ہزاروں سال پہلے مہا بھارت کی جنگ کا لائو براڈکاسٹ کیسے ہو رہا تھا۔ پلاسٹک سرجری؟ کیا بڑی بات ہے؟ گنیش جی کے جسم پر ہاتھی کا سر کیا محلے کے جراح نے نصب کیا تھا؟ کوئی تو پلاسٹک سرجن رہا ہوگا اس زمانے میں؟ ہوائی جہاز؟ کیا یار! پہلے کون سی ریل گاڑیاں ہوتی تھیں؟ آپ کو کیا لگتا ہےکہ چھ ہزار سال پہلے ہم کیسے سفر کرتے تھے؟ وہ اڑن کھٹولے، وہ قالین جن کے قصے کہانیاں سن کر آپ بڑے ہوئے ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے کہ صرف قصے کہانیوں تک ہی محدود تھے؟
اور وہ ہوائی جہاز گرین ٹیکنالوجی سے چلتے تھے۔ زیادہ امکان تو شمسی توانائی کا ہی ہے۔ اس زمانے میں ہوا اتنی صاف جو تھی۔ نہ ہوتی تو آثار قدیمہ والوں کو کھدائی میں کہیں تو کوئی ’پلیوشن ماسک‘ ملتا، ویسے بھی آپنے دیکھا ہوگا کہ اڑن کھٹولوں پر لوگ کھلی ہوا میں ہی بیٹھتے تھے، اگر دھواں ہوتا تو ان کے پھیپڑے تباہ ہونے میں کتنی دیر لگتی؟
اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو یہ سب واقعی تھا یا نہیں تھا۔ لیکن اس بحث میں پڑنا فضول ہے، جسے جو ماننا ہے ماننے دیجیے، بس خوش رہیے اور رہنے دیجیے۔ اور یہ پرابلم صرف انڈیا یا بی جے پی والوں کی ہی نہیں ہے، ہر پرانی تہذیب والے ماضی میں جیتے ہیں، مصر سے لیکر روم تک آپ جہاں بھی یہ کالم پڑھ رہے ہیں وہاں آپ کو یہ بتانے والے مل جائیں گے کہ جب ’ہم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں روز نئی بلندیاں چھو رہے تھے تو باقی دنیا کیلے کے پتے باندھ کر گھوم رہی تھی۔

آپ نے اکثر انڈیا میں کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ جو مغربی دنیا آج کر رہی ہے وہ ہم دس ہزار سال پہلے کر رہے تھے (فوٹو: ٹوئٹر)

سوال صرف یہ ہے یا ہونا چاہیے کہ کہیں یہ وہ دوراہا تو نہیں ہے جہاں سے غلط موڑ لے لیا تو دو چار صدی کہاں چلی جائیں گی پتا بھی نہیں چلے گا؟
دو چھوٹی سی مثالیں ہیں جن کی بنیاد پر آپ کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت نے ’گاؤ کابینہ‘ تشکیل دی ہے جس کا پہلا اجلاس پیر کو خود وزیراعلیٰ کی صدارت میں ہوا۔ گائے کو ہندو مذہب میں مقدس مقام حاصل ہے اور گائے کے تحفظ کے لیے کئی ریاستوں میں اتنے سخت قوانین موجود ہیں کہ اچھے اچھوں کی روح فنا ہو جائے۔ دوسرے مویشیوں کے مقابلے میں صرف گائے کے لیے شیلٹر ہوم بنائے جاتے ہیں جہاں وہ سکون سے اپنی باقی ماندہ زندگی گزار سکتی ہیں۔
لیکن کیا اتنا کافی نہیں ہے؟ اب یہ گاؤ کابینہ گائے کے گوبر اور پیشاب کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے حکمت عملی وضع کرے گی۔ کھاد اور ایندھن کے طور پر گوبر استعمال ہوگا اور پیشاب دوائی کے طور پر۔ اور ہاں گائے دودھ بھی دیتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ گائے کا دودھ ہے اس لیے کمزور بچوں کو طاقتور بنانے کے لیے انہیں انڈوں کے بدلے اب صرف گائے کا دودھ دیا جائے گا۔
بھائی انڈوں سے کیا مسئلہ ہے؟ انڈوں کے ساتھ گائے کا دودھ کیوں نہیں دے سکتے؟ لیکن یہ دودھ اور انڈے کی بحث نہیں ہے، یہ بچوں کی غذا سے انڈے ہٹانے اور یہ ثابت کرنے کی بحث ہے کہ جب گائے کا دودھ پی رہے ہیں تو باقی کسی چیز کی کیا ضرورت ہے۔
دوسری مثال وکرم سیٹھ کی کتاب ’اے سوٹ ایبل بوائے‘ پر بننے والی نیٹ فیلکس سیریز کی ہے۔ اس لمبی کہانی میں ایک مسلمان لڑکا ایک ہندو لڑکی کو تین مرتبہ ’کس‘ کرتا ہے۔ بی جے پی کے ایک نوجوان رہنما نے شکایت کی ہے کہ یہ ’لو جہاد‘ کو فروغ دینے کی سازش ہے اور ظاہر ہے کہ مدھیہ پردیش کی حکومت کے سامنے کوئی انصاف کی گہار لگائے تو حکومت کیسے خاموش بیٹھ سکتی ہے۔ اس لیے ریاست کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اہلکار ان سینز کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ سیریز کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔

مدھیہ پردیش بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں نام نہاد لو جہاد کے خلاف انتہائی سخت قوانین بنائے جارہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پولیس کے ایک سینیئر افسر نے کہا کہ ’ہمیں مواد کا تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔۔۔‘ بات میں وزن تو ہے، معاملہ سنگین ہے اور کارروائی سے پہلے ضروری ہے کہ ’مواد‘ کو ہر زاویے سے دیکھ لیا جائے۔
اور اس کے بعد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وکرم سیٹھ سے کہا جائے کہ کسنگ کے سین رکھنے ہیں تو لڑکے اور لڑکی کا مذہب بدل دو ورنہ کہانی دوبارہ سے لکھ لو۔ وہ چاہے لاکھ یہ کہتے رہیں کہ کتاب 27 سال پرانی ہے اور اس وقت صرف ’لو‘ ہوتا تھا اور جہاد کا ذکر افغانستان سے باہر کم ہی لوگوں نے سنا تھا۔
مدھیہ پردیش بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں نام نہاد لو جہاد کے خلاف انتہائی سخت قوانین بنائے جارہے ہیں۔ ایسے قانون جن کے متن پڑھنے کے بعد بڑے سے بڑے عاشق شادی کا خیال ہی ترک کردیں گے۔ کہیں گے کہ یار سیدھے جیل ہی چلتے ہیں، شادی کے بعد بھی تو پانچ دس سال وہیں گزارنے ہیں، لڑکی کی زندگی برباد کرنے سے کیا فائدہ۔ ہم نے تو صرف محبت کی تھی لیکن کچھ لوگوں کے ذہنوں پر جہاد اتنا حاوی کہ انہیں باقی کچھ نظر نہیں آتا۔
اور اس سب کے درمیان انڈیا چاند پر جانے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ یہ بہت سمجھداری کی بات ہے۔ خلاباز چاند کی صاف شفاف زمین سے جھک کر نیچے دیکھیں گے تو ہو سکتا ہےکہ انہیں لگے کہ ہم پھر اس دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے غلط موڑ لیا تو دو چار صدیوں کہاں غائب ہو جائیں گی، کسی کو خبر نہیں ہوگی، ایک راستہ ترقی کی طرف جاتا ہے اور دوسرا گھوم کر وہیں واپس پہنچا دیتا ہے جہاں اب کھڑے ہیں۔ بس تھوڑا پیچھے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اور ہاں، عاشق لو جہاد کے نئے قانون سے بھلے ہی ڈر جائیں لیکن چاند سے ان کا رشتہ پرانا ہے۔ کوئی دل جلا اگر مڑ کر یہ کہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یار آپ اب چاند پر جا رہے ہیں، یہ کام ہم ہزاروں سال سے کرتے ہیں، اور خود نہیں جاتے چاند ستاروں کو زمین پر لاتے ہیں۔

شیئر: