Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غداری کے الزامات کا سامنا کرنے والی کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کون ہیں؟

آسیہ اندرابی گذشتہ چار دہائيوں سے کشمیر کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
دہلی کی ایک عدالت نے دو ہفتے قبل کشمیر کی علیحدگی پسند رہنما اور دخترانِ ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی اور ان کی دو ساتھیوں پر انڈیا کے خلاف جنگ کرنے، ملک سے غداری کرنے اور ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے ہیں۔
دوسری جانب گذشتہ روز پاکستان میں انسانی حقوق کی وزیر نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیری رہنما کی رہائی میں اپنا کردار ادا کرے۔
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق 21 دسمبر 2020 کو دہلی کی خصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ نے حکم دیا تھا کہ آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھی صوفی فہمیدہ اور ناہیدہ نسرین کے خلاف تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (پو پی پی اے) کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے۔

 

خیال رہے کہ ان خواتین کو دو سال قبل اپریل سنہ 2018 میں ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ان پر تعزیرات ہند کی دفعات 120-بی (مجرمانہ سازش)، 121 (حکومتِ ہند کے مخالف جنگ آزما ہونا)، 121-اے (حکومت ہند کے خلاف جنگ کی سازش)، 124-اے (غداری)، 153 اے (مختلف فرقوں میں منافرت پھیلانے)، 153 بی (ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے) اور 505 (عوام میں شرانگیز بیان) کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ یو پی پی اے کی مختلف دفعات کے تحت بھی مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پاکستان نے کہا ہے آسیہ اندرابی پر بے جا اور من گھڑت الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔
آسیہ اندرابی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی ایک رہنما ہیں جو گذشتہ چار دہائيوں سے علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہیں۔
وہ کشمیر کی خواتین تنظیم دخترانِ ملت کی بانی ہیں اور ان کی پارٹی علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرنس کا حصہ رہی ہے۔
سنہ 1962 میں ڈاکٹر والدین کے گھر میں پیدا ہونے والی آسیہ اندرابی نے بائیو کیمسٹری میں گریجویشن کی جبکہ ذہن میں انقلابی تبدیلی کے بعد عربی زبان و ادب میں کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔

عدالت نے آسیہ اندرابی کے خلاف تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے سنہ 1990 میں عاشق حسین فکٹو سے شادی کی جو شادی کے دو سال بعد سے ہی قید میں ہیں۔
آسیہ اندرابی کا کہنا ہے کہ وہ ایک حوصلہ مند لڑکی تھیں لیکن بیرون میں ان کی پڑھنے کی خواہش نہ پوری ہونے کے سبب وہ صدمے میں آ گئیں اور انھوں نے جب مائل خیرآبادی کی کتاب ’خواتین کی باتیں‘ پڑھیں تو انھیں حوصلہ ملا۔
اس کتاب میں مسیحی خاتون مریم جمیلہ کی کہانی نے انھیں بہت متاثر کیا جنھوں نے مذہب کے مطالعے کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مریم جمیلہ کی کہانی نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور وہ اسلام پر عمل پیرا ہو گئیں۔
انھیں نیویارک میں پلنے بڑھنے والی یہودی خاتون مارگریٹ مارکس کے قبول اسلام نے بہت متاثر کیا اور انھوں نے ان کی مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مارکس ہی مریم جمیلہ بنیں۔

آسیہ اندرابی نے کشمیری خواتین میں پردے کے اہتمام پر زور دیا جسے کشمیر کے پاپولر کلچر کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

آسیہ اندرابی نے سماج میں پھیلی برائی کو دور کرنے کے لیے دختران ملت نامی تنظیم کی بنا ڈالی لیکن پھر وہ علیحدگی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئیں۔
انڈیا کی ایک ویب سائٹ پرنٹ میں شائع ایک مضمون کے مطابق دس سال کی عمر میں ہی انھیں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ایک مجاہد سے شادی کریں گی۔ لیکن انھوں نے انڈیا کے قومی تفتیشی ادارے این آئی اے کو تفتیش کے دوران بتایا کہ ان میں ساری تبدیلی مریم جمیلہ کے بارے میں پڑھنے کے بعد آئی اور انھوں درس گاہ تعلیم القران کی بنیاد ڈالی تاکہ اسلامی تعلیمات کا فروغ ہو اور اسے کشمیریوں میں عام کیا جا سکے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اہل حدیث مکتبۂ فکر سے ہے جسے عام طور پر قدرے سخت گير تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ آسیہ اندرابی پر بے جا اور من گھڑت الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

انھیں کشمیری تہذیب کو اسلامی تہذیب سے بدلنے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر نوجوانوں کو جہاد کی جانب راغب کرنے کے الزمات بھی لگائے جاتے ہیں لیکن ان کے اپنے دو بیٹے جدید تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ایک بیٹا بیرون ملک ملائشیا میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ وہاں کی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہے۔
آسیہ اندرابی نے کشمیری خواتین میں پردے کے اہتمام پر بھی زور دیا جسے کشمیر کے پاپولر کلچر کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
آسیہ اندرابی اپنے انقلابی رجحانات اور بیانات کے لیے جانی جاتی ہیں اور انھیں 28 اگست 2010 کے بعد کئی بار گرفتار کیا جا چکا ہے اور 16 جولائی 2018 سے وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

شیئر: