Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرائیویسی خدشات: پاکستان میں واٹس ایپ کی متبادل ایپ سال بعد بھی نہ بن سکی

امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سال کے اختتام تک سرکاری ملازمین واٹس ایپ کے بجائے سرکاری کمیونیکیشن نئی ایپلی کیشن کے ذریعے کر رہے ہوں گے۔ فوٹو: ان سپلیش
واٹس ایپ پر سرکاری ڈیٹا غیر محفوظ ہونے کے اعلان اور سرکاری ملازمین پر واٹس ایپ کے استعمال محدود کرنے کی ہدایت کے 14 ماہ بعد بھی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی متبادل سرکاری ایپلی کیشن سامنے نہیں لا سکی ہے۔
دوسری طرف واٹس ایپ کی نئی پرائیویسی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری صارفین کے ڈیٹا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں تاہم پاکستان کا ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بھی گذشتہ سال اپریل سے تیار ہو جانے کے بعد ابھی تک منظوری کے لیے پارلیمنٹ نہیں بھیجا جا سکا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزارت کے ذیلی ادارے قومی انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شباہت علی شاہ نے تصدیق کی ہے کہ نومبر 2019 میں اعلان کی گئی متبادل ایپلی کیشن ابھی تک لانچ نہیں ہو سکی تاہم ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے اختتام تک یہ سروس تیار کر لی جائے گی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ کئی سرکاری ملازمین اب بھی واٹس ایپ استعمال کررہے ہیں اور غیر محفوظ طریقے سے سرکاری دستاویزات شیئر کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ نومبر 2019 میں ایک برطانوی اخبار میں اسرائیلی کمپنی کی طرف سے پاکستان کےسرکاری افسران کے موبائل فون ڈیٹا تک رسائی کا انکشاف سامنے آنے کے بعد این آئی ٹی بی کے حکام نے قومی اسمبلی کی آئی ٹی کمیٹی کو بتایا تھا کہ مستقبل میں سرکاری افسران واٹس ایپ استعمال نہیں کر سکیں گے اور حکومت اس کے متبادل ایک سرکاری ایپ چند ماہ میں لانچ کر دے گی۔
واٹس ایپ کی طرف سے نئی پرائیویسی پالیسی کے تحت اپنا ڈیٹا فیس بک کے ساتھ شئیر کرنے کے اعلان کے بعد اردو نیوز نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ترجمان علی کاظم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے جلد وفاقی وزیر برائے آئی ٹی ایک پالیسی بیان جاری کریں گے۔‘
وزارت کی طرف سے نئی ایپس بنانے کا کام این آئی ٹی بی کے ذمے ہے تاہم بورڈ کے چیئرمین شباہت علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ابھی سرکاری ملازمین کے لیے واٹس ایپ کی متبادل ایپ بنانے پر کام جاری ہے۔ اس حوالے سے تاخیر پر ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال کورونا کے باعث کچھ تعطل آیا تھا لیکن اب اس سلسلے میں تکنیکی جائزہ اگلے ایک دو ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا جس کے بعد کسی مقامی ڈیولپر کو اس سروس کا کام ایوارڈ کر دیا جائے گا۔‘

'متبادل ایپ ابتدائی طور پر سرکاری کمیونیکیشن کے لیے ہوگی تاکہ پاکستان کی حساس معلومات محفوظ طریقے سے شیئر کی جا سکیں۔' فوٹو: ان سپلیش

گویا ابھی تک وزارت نے یہ بھی طے نہیں کیا کہ متبادل ایپ کونسی کمپنی چلائے گی۔ اس حوالے سے سوال پر شباہت علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’اب تک حکام نے یہ جائزہ لیا ہے کہ کس طرح کی چیٹ سروس درکار ہے اس کا سکوپ کیا ہو گا اور اس حوالے سے کیا تکنیکی مہارت درکار ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ متبادل ایپ ابتدائی طور پر سرکاری کمیونیکیشن کے لیے ہوگی تاکہ پاکستان کی حساس معلومات محفوظ طریقے سے شیئر کی جا سکیں۔ این آئی ٹی بی کے سربراہ کے مطابق متبادل ایپ کا تمام ڈیٹا مقامی سطح پر سٹور کیا جائے گا۔
ان سے پوچھا گیا کہ یہ ایپ کب تک استعمال کے قابل ہو سکے گی تو انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’اس سال کے اختتام تک سرکاری ملازمین واٹس ایپ کے بجائے سرکاری کمیونیکیشن نئی ایپلی کیشن کے ذریعے کر رہے ہوں گے۔‘
اس سوال پر کہ کیا یہ ایپ واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر عوامی استعمال کے لیے بھی دستیاب ہو گی، ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی تفصیلات طے نہیں ہوئیں ہیں تاہم مقامی میڈیا پر ووفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الاحق سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی متبادل ایپ عوامی سطح پر بھی تمام پاکستانیوں کے لیے دستیاب ہو گی۔

بورڈ کے چیئرمین شباہت علی شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ابھی سرکاری ملازمین کے لیے واٹس ایپ کی متبادل ایپ بنانے پر کام جاری ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پی ٹی اے کا واٹس ایپ سے رابطہ
پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹر پی ٹی اے نے واٹس ایپ کی نئی پرائیوسی پالیسی کے حوالے سے کمپنی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے اور ذرائع کے مطابق کمپنی نے پی ٹی اے کو اس حوالے سے وضاحت بھی بھیجی ہے تاہم ابھی تک اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔
پی ٹی اے ذرائع کے مطابق اتھارٹی نے پاکستانی صارفین کی ڈیٹا کے حوالے سے تشویش کے بعد واٹس ایپ انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد کمپنی نے وضاحت بھی کی ہے۔ ماہرین کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے اس لیے پی ٹی اے کا کمپنیوں پر اس حوالے سے دائرہ کار محدود ہو جاتا ہے۔
 یاد رہے کہ واٹس ایپ نے اس حوالے سے منگل کو عوامی سطح پر بھی وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ صارف کے پرائیویٹ میسیجز یا کالز نہیں سن سکے گا نہ فیس بک ایسا کر سکے گا۔ واٹس ایپ کی جانب سے یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ پرائیویسی اپ ڈیٹ سے ذاتی رابطے متاثر نہیں ہوں گے، البتہ واٹس ایپ کے بزنس اکاؤنٹس سے رابطے کے دوران کی گئی سرگرمی، فیس بک سے شیئر کی جائے گی۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

میسیجنگ ایپلیکیشن کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ بزنس اکاؤنٹ کی ڈیٹا شیئرنگ کا مقصد بزنسز کو نئے ٹولز کی فراہمی ہے تاکہ صارفین زیادہ بہتر انداز میں یہ سہولت استعمال کر سکیں۔

ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بھی سست روی کا شکار

واٹس ایپ کی طرف سے پاکستانی صارفین کے ڈیٹا کو لاحق خطرات سے قبل بھی ملک میں انٹرنیٹ کے صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان ایک جدید قانون لائے جس سے شہریوں کی ذاتی معلومات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی واٹس ایپ کی نئی پرائیویسی پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئے قوانین لانے پر غور کرنے کا کہا ہے۔
اپنی ایک ٹویٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ’واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی، صارفین کی حساس معلومات کے ڈیٹا شیئرنگ کی اجازت دیتی ہے اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، شہریوں کی پرائیویسی پالیسی اور ڈیٹا کے تحفظ کے لیے مضبوط قانون متعارف کروانے پر غور کر رہی ہے۔‘
اس حوالے سے وزارت آئی ٹی کی ویب سائٹ پر ’پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2020‘ کے نام سے ایک مسودہ گذشتہ سال اپریل میں اپ لوڈ کیا گیا تھا تاکہ اس کے حوالے سے عوام اور تمام فریقین کی آرا لی جا سکیں تاہم ابھی تک مشاورت کا عمل مکمل نہیں ہو سکا اور مسودہ پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے نہیں بھیجا جا سکا۔
رابطہ کرنے پر وزارت آئی ٹی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اب تک بل کو قومی اسمبلی بھیجا جا چکا ہوتا مگر وزارت کے لیگل ونگ کی جانب سے اس میں عوامی مشاورت کے بعد کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے مسودے پر عوام، سرکاری اداروں اور مقامی و بین الاقوامی اداروں کی رائے لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کو بغیر مشاورت پارلیمنٹ میں نہیں لے کر جانا چاہتے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: