Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟

منحرف رکن بابر ایس بابر نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے  (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اپوزیشن کی جماعتوں نے 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس احتجاج کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کے حوالے سے زیر التوا مقدمے کا جلد فیصلہ کرے۔
حکومت نے اگرچہ اس احتجاج میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم فارن فنڈنگ کے حوالے سے خبریں ایک مرتبہ پھر میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ خود حکومتی جماعت بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دے چکی ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

2014 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔ اس درخواست میں انہوں نے مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالرز ہنڈی سے پارٹی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے جانے کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے وہ بینک اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے جن میں پارٹی فنڈز جمع ہوتے تھے۔
بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی اس کیس میں فریق بن گئیں۔

اب تک کیا کارروائی ہوئی؟

اکبر ایس بابر نے پارٹی  فنڈز میں بے ضابطگیوں اور غیر قانونی و بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست دی تو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا۔

2014 میں پی ٹی آئی  کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

تقریبا ایک سال گزر جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے اعتراض مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈز کی چھان بین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
ایک ماہ کے بعد  26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار اور اکبر ایس بابر کے بطور مدعی بننے پر اعتراضات کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔
 ہائی کورٹ میں یہ معاملہ تقریباً ڈیڑھ سال جاری رہا اور 17 فروری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کے خلاف درخواست مسترد کردی اور الیکشن کمیش کو سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
مسلم لیگ ن کے سابق ممبر قومی اسمبلی حنیف عباسی نے 2017 میں سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دے کہ فارن فنڈنگ کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ استدعا قبول کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس کیس کا جلد فیصلہ کرنے کا حکم جاری کیا۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ڈائریکٹر جنرل لا وِنگ، ایک ایڈیشنل سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کے آڈیٹر جنرل کے افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کی۔
تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کمیٹی کے خلاف بھی درخواست دائر کر دی تاہم عدالت نے اسے بھی مسترد کر دیا۔
جولائی 2018 میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے تفصیلات فراہم نہ کرنے پر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 2009 سے لے کر 2013 تک تحریک انصاف کے بینک اکاؤئنٹ کی تفصیلات طلب کیں۔

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاؤئنٹس کی تفصیلات فراہم کیں۔ اس سے قبل تحریک انصاف کی جانب سےآٹھ اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر فارن فنڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے پارلیمانی سیکرٹری فرخ حبیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ 2017 سے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے فارن فنڈنگ کے حوالے سے پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ’سکروٹنی کمیٹی کے درجنوں اجلاس ہو چکے ہیں لیکن نتیجے تک نہیں پہنچے۔ پی پی پی اور ن لیگ سکرونٹی کمیٹی کا مانگا گیا ریکارڈ جمع نہیں کروا رہے۔ ہم نے درخواست دی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سکرونٹی کمیٹی کا اجلاس ہو۔
انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف اس کیس سے نہیں بھاگ رہی بلکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھاگ رہی ہیں۔ اگر ان میں ہمت ہے تو سکروٹنی کمیٹی میں پیش ہوکر جواب جمع کرائیں۔‘
یاد رہے کہ  پاکستان ڈیموکریٹک کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن نے 18 جنوری کو پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو غیر ملکی فنڈنگ کیس کے حوالے سے طلب کرلیا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کے 13 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف نے جمع کرائے  گئے اپنے جواب میں تسلیم کیا ہے کہ پارٹی صرف پی ٹی آئی امریکہ ایل ایل سی 5975 اور 6160  کی جانب سے منتقل فنڈ وصولی کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ رقم پی ٹی آئی کی جانب سے وصول کی گئی۔
اردو نیوز کو دستیاب جواب میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ملک سے باہر پاکستانیوں کو ایجنٹس مقرر کرتی ہے ۔ پی ٹی آئی ایل ایل سی ایک ایجنٹ ہے۔ اگر ایجنٹ پی ٹی آئی کی جانب سے دی گئی ہدایت کے برعکس رقم کی تفصیلات پارٹی کو فراہم نہیں کرتا تو پی ٹی آئی مواد کی تصدیق کرنے کی ذمہ دار نہیں۔

فارن فنڈنگ کیس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی فریق ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے  دستخظ کردہ  ہدایت  نامے کے مطابق ایجنٹس کو ممنوع ذرائع سے فنڈ اکھٹا نہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ایجنٹس کی جانب سے اکھٹا کیا گیا کوئی بھی قابل اعتراض فنڈ، پارٹی کی جانب سے دی گئی ذمہ داری سے ہٹ کر ہے۔
ایجنٹس نے بیان حلفی جمع کرایا کہ انھوں نے پی ٹی آئی فنڈ اکھٹا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا۔ فنڈز بینک کے ذریعے بھیجے گئے جو پاکستانی نژاد  افراد سے اکھٹے کیے گئے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک سے حاصل کیے گئے فنڈز پاکستانی نژاد افراد سے وصول کیے گئے ہیں۔

الیکشن ایکٹ کیا کہتا ہے؟

الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنے ارکان سے ممبرشپ فیس، چندہ یا ڈونیشن لے سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں پابند ہیں کہ وہ ایک لاکھ روپے سے زائد چندہ دینے والے افراد کی فہرست بھی الیکشن کمیشن کو فراہم کریں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو کسی غیر ملکی حکومت، تنظیم، فرم، کمپنی یا افراد سے فنڈنگ لینے کی ممانعت ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا پابند ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوع ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔

تحریک انصاف پر الزام ہے کہ بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟

سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف کی جانب سے جو جواب جمع کرایا ہے۔ اس کو کمیٹی یا الیکشن کمیشن کس نظر سے دیکھتا ہے اس پر بڑا انحصار ہوگا۔ تحریک انصاف کچھ بھی دعویٰ کرے عدالت نے اس شہادت کو دیکھنا ہے جو اس کے سامنے پیش ہوئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح سٹیٹ بینک کی طرف سے جن بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی گئی ہیں ان کو پی ٹی آئی کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات پر فوقیت ملے گی۔ جس سے بہت فرق پڑ سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ ’اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دے بھی دے تو اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ اس لیے اس فیصلے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔‘

شیئر: