Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کب تماشا ختم ہو گا

سابق وزیراعظم کو ایک معاہدے کے تحت باہر بھیج دیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
گڑھے مردے اکھاڑنے کا محاورہ سنا تو تھا مگر براڈ شیٹ کے معاملے پر خوب صادق آ رہا ہے۔
 سنہ 2000  میں ایک تازہ تازہ اور مشکوک کمپنی کے ساتھ اس وقت کی تازہ تازہ فوجی حکومت ایک مشکوک معاہدہ کرتی ہے جس کے ذریعے سیاستدانوں اور سرکاری اہلکاروں کے بیرونِ ملک اثاثوں کی خبر آنی تھی۔
اثاثے تو کیا آتے الٹا سابق وزیراعظم کو ایک معاہدے کے تحت باہر بھیج دیا گیا اور یہ معاہدہ منسوخ ٹھہرا وہ بھی قانونی ضروریات پوری کیے بغیر۔ پھر جب مقدمہ بازی شروع ہوئی تو ایک جعلی شخص کو 2008 میں ادائیگی کر دی گئی۔
اب 2021 میں قوم کو پتا چلا کہ ایک ایسا شخص پاکستان سے اربوں روپے لے گیا جو اصل معاہدے کے وقت موجود ہی نہیں تھا۔ اب اسی مشکوک شخص کے بیانات کو حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور وہ بھی خوب ہوشیاری سے دونوں کی مرضی کا مواد مہیا کر رہا ہے۔
اربوں روپے لینے کے بعد اب مزید معاہدوں کی آفرز بھی کر رہا ہے اور ہمارے بہت سے بظاہر ذمہ دار لوگ ان آفرز کو سنجیدہ بھی سمجھ رہے ہیں۔ ایک کمیشن بنانے کا بھی اعلان ہوا ہے جس پر علیحدہ تنازع کھڑا ہو چکا ہے۔  
اس سارے معاملے میں ہمارے لیے بہت سے سوال اور بہت سے سبق ہیں اگر ہم غور کرنا چاہیں۔ ہر دس بیس سال بعد ہم احتساب کا ایک تماشا شروع کرتے ہیں۔
 بلند و بانگ دعوے ہوتے ہیں، اربوں ڈالر کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں، جیلیں بھری جاتی ہیں، سیاست اور سیاستدانوں پر خوب لعن طعن ہوتی ہے اور بے رحمانہ احتساب کے گن گائے جاتے ہیں۔ مگر پھر ایک دو برسوں میں سب کچھ بھول کر دوبارہ سیاست دانوں سے ڈیل ہوتی ہے اور احتساب کی گاڑی سست پٹڑی پر ڈال دی جاتی ہے۔ تاوقتیکہ ایک ڈیڑھ دہائی گزرتی ہے اور جھاڑ پونچھ کر پرانے کیس نکلتے ہیں اور ساتھ ایک تازہ ڈیل کی خبریں بھی۔  
اگر براڈ شیٹ کا کیس نہ ابھرتا تو ہمیں یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ سال 2000 میں ویسے ہی بزرج مہر احتساب کے انچارج تھے جیسے 2020 میں ہیں۔

اثاثہ جات کی ریکوری کے لیے نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان 2000 میں معاہدہ ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت بھی چٹکی بجا کر اربوں ڈالر کی نوید سنائی جاتی تھی جیسے آج سنائی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ملین ڈالرز آنے کے بجائے ہمیں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ وہ سینکڑوں اوپن اور شٹ کیسز جو 2000  میں بنائے گئے وہ عدالتوں سے بری ہوتے ہیں اور ہم 20-2018 میں بنائے جانے والے کیسز کو تاریخ ساز سمجھتے ہیں۔ اگر تاریخ کا کوئی سبق ہے تو 20-2018 کے کیسز کا حال بھی 2000 سے مختلف نہیں ہوگا تو پھر اس تماشے کی ضرورت ہی کیا ہے؟  
کیا اس کی ضرورت ہماری سیاست میں آپریشن کلین اپ کے لیے پڑتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو الیکشن کس لیے ہوتے ہیں؟
 جو پرفارم نہ کرے اس کے خلاف عوام کی عدالت میں جا کر فیصلہ لے لینا چاہیے۔ کیا ایسا ہمارے  نظام کی اصلاح کے لیے ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر بجائے شارٹ کٹ کے بیوروکریسی کے نظام میں ایسی اصلاحات کیوں نہیں کی جاتیں کہ کرپشن کے مواقع کم سے کم رہ جائیں۔
سرکاری افسروں کو اتنا تحفظ ہو کہ وہ ناجائز کام کو نہ کہہ سکیں اور آڈٹ اتنا مضبوط ہو کہ وہ بد عنوانی کو پکڑ سکے۔ کیا یہ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ طاقتور بھی جیل میں نظر آئیں۔ اگر ایسا ہے تو ہر انصاف کے نظام میں ایسے سقم اور سوراخ کیوں چھوڑے جاتے ہیں جن کا فائدہ ان طاقتورں کو ہوتا ہے؟
کیا اس کا مقصد ناپسندیدہ کرداروں کو سیاست سے آؤٹ کرنا ہوتا ہے؟ مگر پھر انہی کرداروں سے ڈیل بھی کر لی جاتی ہے۔  

’پرانے ہیرو نئے ولن بنائے جاتے ہیں اور کئی گئے گزرے کردار دوبارہ مسیحا بنا کر پیش کیے جاتے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

کہنے کو تمام لوگوں کو ہر وقت بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا مگر اس تماشے کے بنانے والے ماہر ہیں۔ ایسا ماحول بناتے ہیں کہ جیسے یورپ اور گلف سے ڈالروں کی براہ راست بارش ہوئی کہ ہوئی مگر آخر میں نکلتا ہے براڈ شیٹ۔
پرانے ہیرو نئے ولن بنائے جاتے ہیں اور کئی گئے گزرے کردار دوبارہ مسیحا بنا کر پیش کیے جاتے ہیں اور تماشا جاری رہتا ہے۔ عوام اب اتنے تماشوں کے بعد افتخار عارف کی زبان میں یہ دہائی دے رہے ہیں کہ  
بکھر جائیں گہ ہم جب تماشا ختم ہو گا 
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا  
عوام اس سوال کا جواب نہ صرف اہل اقتدار بلکہ اہل قلم سے بھی کر رہے ہیں۔ اہل اقتدار سے تو اس کا کوئی جواب ملنے کی امید نہیں مگر میڈیا اور اہل قلم جو حقیقت کے ترجمان ہوتے ہیں ان کی طرف سے بھی یہی جواب ہے کہ  
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے  
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا 

شیئر: