Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی فرم کو ساڑھے چار ارب کی ادائیگی، نیب اور براڈ شیٹ تنازع میں حقائق کیا ہیں؟

ذرائع کے مطابق 31 دسمبر کو پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کو 28 اعشاریہ سات ملین پاؤنڈ ادا کر دیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آف شور فرم براڈ شیٹ ایل ایل سی کو گزشتہ ہفتے لندن ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے ساڑھے چار ارب روپے سے زائد جرمانے کی رقم کی ادائیگی کے بعد نیب اور اثاثہ جات ریکوری فرم کے درمیان کرپٹ افراد کے بیرون ملک اثاثے پکڑنے کے معاہدے کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔
یہ معاہدہ 2000 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے بنائے گئے نیب اور اثاثہ جات ریکوری کی فرم کے درمیان نواز شریف، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور 200 پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کی چھان بین کے لیے ہوا تھا. تاہم 2003 میں پاکستان کی طرف سے معاہدہ ختم کر دیا گیا تھا جس پر براڈ شیٹ نے لندن کی عدالت میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا تھا۔
اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ حکومت اور نیب اس معاہدے کی بدولت کسی سیاستدان کے غیر ملکی اثاثے تو نہ پا سکے مگر قومی خرانے کو ان ساڑھے چار ارب کے علاوہ کروڑوں روپے غیر ملکی وکلا کی فیس کی مد میں بھی ادا کرنے پڑ گئے۔
نیب نے اس حوالے سے ایک طویل وضاحت  جاری کی ہے جس میں کیس کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ کا براڈ شیٹ معاہدے سے کوئی تعلق تھا نہ لندن میں اس حوالے سے عدالتی کارروائی موجودہ نیب انتظامیہ کے ایما پر شروع ہوئی تھی۔

تازہ ترین پیش رفت کیا ہوئی ہے؟

اس حوالے سے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذرائع نے اردو نیوز کو تصدیق کی کہ چند دن قبل یعنی 31 دسمبر  کو ہائی کمیشن کے زیرانتظام چلنے والے ایک اکاؤنٹ سے لندن کی ہائی کورٹ کے حکم پر براڈ شیٹ کو 28 اعشاریہ سات ملین ڈالرز ادا کر دیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ہائی کمیشن نے لندن میں اپنے بینک یو بی ایل کو بغیر اجازت فنڈز کی منتقلی پر خبردار بھی کیا تھا تاہم بینک نے عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رقم براڈ شیٹ کو ادا کر دی۔
ذرائع کے مطابق یہ خطیر رقم تقریباً ایک سال قبل نیب کی جانب سے لندن کے بینک اکاؤنٹ میں رکھوائی گئی تھی تاکہ لندن کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد توہین عدالت کی کارروائی سے بچا جا سکے۔

سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے اثاثہ جات کی چھان بین کے لیے نیب قائم کیا تھا فوٹو: اے پی پی

اس سے قبل پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس کو رقم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے منجمد کر دیا گیا ہے۔
تاہم اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر لندن ہائی کمیشن کے ترجمان منیر احمد نے کہا کہ ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے براڈ شیٹ کو رقم کی ادائیگی کے حوالے سے سوال پر جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس حوالے سے متعلقہ اداروں سے موقف لیا جائے۔
دوسری طرف آف شور فرم کی جانب سے جرمانے کی ادائیگی کے لیے  شریف فیملی کے چار ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو اٹیچ کرنے کی درخواست کو لندن کی عدالت نے مسترد کر تے ہوئے قرار دیا کہ اس پراپرٹی کا نیب، حکومت پاکستان اور براڈ شیٹ کے درمیان مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مشرف دور میں نیب اور براڈ شیٹ کا معاہدہ کیا ہوا تھا؟

جب 1999 میں جنرل پرویز مشرف ایک ’فوجی انقلاب‘ کے  ذریعے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو معذول کرنے کے بعد برسراقتدار آئے تو انہوں نے کرپٹ سیاستدانوں کے کڑے احتساب کا وعدہ کیا اور اس مقصد کے لیے قومی احتساب بیورو نیب کو بھی قائم کیا گیا۔
اسی دوران انہوں نے نیب کے بانی چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کے ذریعے ایک غیر معروف آف شور کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی کے ساتھ جون 2000 میں ایک خفیہ معاہدہ کیا۔
معاہدے کی رو سے براڈ شیٹ کو دو سو کے قریب، سیاستدانوں، ریٹائرڈ سول و فوجی حکام اور کاروباری افراد کے کرپشن کے ذریعے بنائے گئے غیر ملکی اثاثوں کا پتا لگانا تھا۔

نیب نے آمدن سے زیادہ اثاثہ جات رکھنے پر پاکستانی سیاستدانوں کے خلاف مقدمات دائر کیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان افراد م کی لسٹ میں ٹاپ ٹارگٹ نواز شریف اور ان کا خاندان تھا، جبکہ لسٹ میں بے نظیر بھٹو، آصف زرداری کے علاوہ دیگر افراد بھی شامل تھے۔ معاہدے کی رو سے براڈشیٹ کو پتا لگائے گئے اثاثوں کی مالیت کا 20 فیصد ادا کیا جانا تھا جبکہ کمپنی نے ان اثاثوں کی ریکوری کے لیے پیشہ ورانہ، مالی اور دیگر وسائل مہیا کرنے تھے۔ اس کے علاوہ آف شور فرم کو کئی لاکھ ڈالر فیس کی مد میں بھی ادا کیے گیے۔

معاہدے کا اختتام اور طویل عدالتی جنگ

 تاہم 2003 میں پاکستان حکومت نے یہ کہہ کر یہ معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر دیا کہ فرم کی جانب سے کوئی قابل عمل اطلاعات فراہم نہیں کی گئیں۔
تاہم فرم کا موقف تھا کہ اس نے لسٹ میں شامل افراد کے اثاثوں کے حوالے سے قابل ذکر معلومات فراہم کی ہیں تاہم نیب نے ان افراد سے اس معلومات کی بنا پر ڈیل کر لی ہے۔
 اسی دعوے کی بنیاد پر براڈ شیٹ ایل ایل سی نے حکومت پاکستان اور نیب کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں جرمانے کا دعویٰ کر دیا۔ عدالت میں پاکستان کی جانب سے بھی وکلا مقرر کیے گئے اور معاملہ چلتا رہا۔
بلاآخر دسمبر 2018 میں فیصلہ براڈ شیٹ کے حق میں ہو گیا۔ تاہم کمپنی نے 550 ملین ڈالر کا دعویٰ کیا تھا مگر انگلش کورٹ آف اپیل کے سابق جج سر انتھونی ایونز نے بطور ثالث کمپنی کو21 اعشاریہ سات ملین ڈالر کی ادئیگی کا حکم دیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد جولائی 2019 میں پاکستان نے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کی مگر فیصلہ تبدیل نہیں ہوا۔ بلآخر جرمانے کی رقم کے ساتھ روزانہ لاگو ہونے والی سود کی رقم کے ساتھ 28 اعشاریہ سات ملین ڈالر (تقریبا چار ارب ساٹھ کروڑ روپے) پاکستان اور نیب کو ادا کرنے کا حکم جاری ہوا۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں براڈ شیٹ ایل ایل سی کے ساتھ  معاہدہ ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

 شریف فیملی کے لندن فلیٹس کا معاملہ

لندن میں مقیم کئی سالوں سے کیس پر رپورٹنگ کرنے والے پاکستانی صحافی مرتضی علی شاہ کے مطابق جرمانے کی رقم کی ادائیگی کے لیے براڈشیٹ فرم نے پاکستانی حکومت سے خطیر جرمانے کی ادائیگی کے لیے کئی حربے اختیار کیے جن میں سے ایک شریف فیملی کے فلیٹس پر دعوی بھی تھا جسے لندن عدالت نے مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ براڈ شیٹ نے گزشتہ سال انگلینڈ کے دورے پر آئی پاکستان کرکٹ ٹیم پر بھی حق جتاتے ہوئے حکومت پاکستان کو خط لکھا تھا کہ پاکستان ٹیم بھی حکومت پاکستان کا اثاثہ ہے اس لیے ان کے قبضے میں موجود اثاثوں پر بھی عدالتی حکم کے مطابق فرم کا حق ہے۔ تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ نے جواب میں کہا تھا کہ یہ ایک آزاد ادارہ ہے جس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
براڈ شیٹ نے لندن ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں  شریف فیملی کے چار اپارٹمنٹس کی اٹیچمنٹ کی بھی درخواست کی تھی۔
فرم کا کہنا تھا کہ کیونکہ ایون فیلڈ سے متعلق ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹ ضبط کرنے کا حکم دیا ہے اور حکومت پاکستان اس پراپرٹی میں دلچسپی رکھتی ہے اس لیے پراپرٹیز کو عدالتی کارروائی کاحصہ بنا لیا جائے اور اگر حکومت پاکستان جرمانہ دینے میں  ناکام رہے تو یہ پراپرٹیز براڈشیٹ کے حوالے کردی جائیں۔
تاہم گزشتہ ماہ عدالت نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔ شریف فیملی کے وکلا نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
مرتضی علی شاہ کے مطابق بظاہر براڈ شیٹ بمقابلہ حکومت پاکستان کیس ابھی بھی ختم نہیں ہو رہا کیونکہ فرم چاہتی ہے کہ اسے سود کی مد میں مزید رقم ادا کی جائے۔

شیئر: