Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں وبا کی نئی شکل 'زیادہ خطرناک'

وائرس کی ملک میں گردش کرنے والی نئی شکل کو 50 سے 70 فیصد زیادہ منتقلی کے قابل کہا جا رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد منگل کو ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی جبکہ دوسری جانب ملک میں وائرس کی نئی شکل سامنے آنے کے بعد نئے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چیف میڈیکل افسر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ویکسین لگانے کے پروگرام کے اثرات ظاہر ہونے سے قبل مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔‘
 
اس کے علاوہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کورونا وائرس کی نئی شکل بھی برطانیہ میں موجود ہے جس کے بارے میں ابتدا میں برطانوی ماہرین کا کہنا تھا کہ ’ان کے پاس موجود ثبوت کے مطابق وائرس کی ملک میں گردش کرنے والی نئی شکل 50 سے 70 فیصد زیادہ منتقلی کے قابل ہے۔‘
تاہم جمعے کو حکومت نے کہا تھا کہ ’وائرس کی نئی شکل 30 سے 40 فیصد زیادہ جان لیوا ہو سکتی ہے، لیکن یہ اندازہ کسی مخصوص ڈیٹا کے مطابق نہیں ہے۔‘
رواں ماہ کے درمیان لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن اور امپیریل کالج لندن کی تحقیقات برطانیہ کے ادارے نیو اینڈ ایمرجنگ ریسپائریٹری وائرس تھریٹس ایڈوائزری گروپ کو پیش کی گئی تھیں۔
ادارے نے ان لوگوں کا ڈیٹا، جنہیں ہسپتالوں کے بجائے اپنی کمیونٹی سے وائرس لگا تھا، اس کو مرنے والوں کی تعداد سے منسلک کیا اور اخذ کیا کہ مرنے والوں میں سے 30 فیصد کی ہلاکت وائرس کی نئی شکل کی وجہ سے ہوئی ہے۔

تحقیقات کے نتائج کتنے قابل اعتماد؟

محققین کا کہنا ہے کہ ’کورونا وائرس کی نئی شکل سے متعلق ڈیٹا میں اب بھی غیر یقینی کی صورت حال ہے اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ ہفتوں بعد بہتر صورت حال معلوم ہوسکے گی۔‘

’ویکسین لگانے کے پروگرام کے اثرات ظاہر ہونے سے قبل مزید ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایڈوائزری گروپ کا کہنا ہے کہ ’ڈیٹا میں کچھ کمی کے باعث تحقیقات میں وائرس کی نئی شکل کے باعث ہسپتال میں داخل ہونے والوں کا ثبوت نہیں ملا ہے۔‘
’وائرس کی شدت کے بارے میں ڈیٹا موجود  ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق میں بیان کی گئی ہلاکتوں کی تعداد کل ہونے والے ہلاکتوں کا صرف آٹھ فیصد ہے جو کہ 'پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کرتا'۔
دوسری جانب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے خلاف یورپی کے کچھ ممالک میں مظاہرے جاری ہیں۔ ان ممالک میں سپین، نیدرلینڈز اور ڈنمارک شامل ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق نیدرلینڈز کی حکومت نے کہا ہے کہ ’وہ مظاہرین کے دباؤ میں نہیں آئے گی اور ملک میں مظاہرے کرنے والوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔‘

شیئر: