Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ سے پاکستان آنے والوں کے لیے قرنطینہ لازمی، نئے ایس او پیز جاری

مسافروں کو کورونا ٹیسٹ رپورٹ سفر سے 72 گھنٹے پہلے حاصل کرنا ہوگی۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر عائد پابندی میں نرمی کرتے ہوئے نئے ایس او پیز کا اعلان کر دیا ہے۔ 
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے  برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں کے لیے نئے ضابطہ کار کے تحت قلیل مدتی وزٹ ویزا یا ورک پرمٹ پر گئے ہوئے پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے مسافروں کو پاکستان آمد سے قبل کورونا منفی رپورٹ ساتھ لانا ہوگی۔ 
مسافروں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی کورونا ٹیسٹ رپورٹ سفر سے 72 گھنٹے پہلے حاصل کریں۔
مسافروں کا پاکستان پہنچنے پر بھی کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا اور انہیں اپنے گھروں پر ہی قرنطینہ کی مدت بھی گزارنا ہوگی۔
برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے آنے والے سفارتکاروں اور ان کے اہلخانہ کو بھی پاکستان کے سفر سے 72 گھنٹے پہلے کورونا کی ٹیسٹ رپورٹ جمع کروانا ہوگی تاہم پاکستان پہنچنے پر پی سی آر ٹیسٹ اور متعلقہ سفارتخانے یا ہائی کمیشن میں قرنطینہ گزارنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ نائیکوپ یا پاکستان اورجن کارڈ رکھنے والے ایسے مسافر جو کہ گزشتہ 10 روز سے برطانیہ یا جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں، کو 9 جنوری کے بعد برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم انہیں کورونا کی ٹیسٹ رپورٹ جمع کروانے کے بعد ہی سفر کی اجازت مل سکتی ہے۔
اس کیٹگری میں شامل مسافروں کا ایئر پورٹ پہنچنے پر اینٹیجن ریپڈ ٹیسٹ کیا جائے گا اور منفی رپورٹ آنے والے مسافروں کو پانچ روز تک قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کے ساتھ گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے گی۔

مسافروں کا پاکستان پہنچنے پر بھی کورونا ٹیسٹ لیا جائے گا۔ فوٹو اے ایف پی

جبکہ ایسے مسافر جن کا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ مثبت آئے گا، ان کا ایئر پورٹ پر ہی پی سی آر ٹیسٹ لیا جائے گا۔ تاہم ٹیسٹ نتائج آنے تک انہیں خود کو گھروں میں ہی قرنطینہ کرنا ہوگا۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے برطانیہ اور جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں کے لیے نئے ایس او پیز 31 جنوری تک لاگو رہیں گے۔
اس سے قبل حکومت پاکستان نے صرف برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم وزٹ، بزنس اور ٹرانزٹ ویزا رکھنے والے مسافروں کو کورونا منفی رپورٹ جمع کروانے کی شرط پر پاکستان آمد کی اجازت تھی۔

شیئر: