Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بابری مسجد پر حملہ کرنے والے دیش بھکت مگر لال قلعے پر چڑھنے والے؟‘

انڈیا کے تاریخی لال قلعے میں کسانوں کے داخل ہونے اور مختلف قسم کے پرچم لہرانے کے واقعہ نے ملک میں دو مہینوں سے جاری کسانوں کی تحریک کا رخ موڑ دیا ہے۔
اب کسانوں کے مطالبے سے زیادہ اس معاملے پر بات ہو رہی ہے کہ کسانوں نے لال قلعے میں داخل ہو کر مختلف قسم کے پرچم لہرا کر انڈیا کے پرچم کی توہین تو نہیں کی۔
منگل 26 جنوری کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقعے پردہلی میں کسانوں کو ٹریکٹر ریلی کی اجازت دینے پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ اس میں پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے اور ایک کسان کی جان بھی گئی۔
بعض میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ انڈین ترنگے (پرچم) کو اتار کر اس کی جگہ خالصتانی جھنڈا لہرایا گیا لیکن در اصل وہ سکھوں کا مذہبی پرچم نشان صاحب تھا اور اس طرح اسے ایک مذہب کی نمائندگی کی علامت کہا جانے لگا۔
گذشتہ روز کے واقعات میں کسانوں پر کئی جگہ ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہیں جبکہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 80 سے زیادہ اہلکار زخمی ہوئے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
گذشتہ روز کسانوں پر پولیس کی لاٹھیاں چلانے کی کئی ویڈیوز وائرل ہوتی رہیں تاہم کتنے کسان زخمی ہوئے اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 80 سے زیادہ اہلکار زخمی ہوئے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

کسانوں نے کہا ہے کہ ان کی ریلی تو ختم ہو گئی لیکن ان کی جدو جہد جاری رہے گی۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق کسانوں کے رہنما راکیش ٹکیت نے یوم جمہوریہ کے واقعے پر کہا کہ 'ان پڑھ لوگ ٹریکٹر چلا رہے تھے اور وہ دہلی کے راستے سے واقف نہیں تھے۔ انتظامیہ نے انھیں دہلی کا راستہ بتایا۔ وہ دہلی گئے اور اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ ان میں سے بعض انجانے میں لال قلعے کی طرف چلے گئے۔ پولیس نے ان کی واپسی میں رہنمائی کی۔'

 کہا جاتا ہے کہ دیپ سدھو نے کسانوں کو لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی تحریک دی۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے لال قلعے پر نشان صاحب لہرانے کا اعتراف بھی کیا۔
ان کے بارے میں راکیش ٹکیت نے اے این آئی کو بتایا کہ: 'دیپ سدھ سکھ نہیں ہے، وہ بی جے پی کا کارکن ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ ان کی تصویر ہے۔ یہ کسانوں کی تحریک ہے اور کسانوں کی رہے گی۔ بعض لوگوں کو اس جگہ کو فوری چھوڑنا ہوگا، جن لوگوں نے بیریکیڈ توڑے وہ کبھی تحریک کا حصہ نہیں ہو سکتے۔'
سوشل میڈیا پر اس کے متعلق بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے اپنے آدمیوں سے یہ سب کرایا ہے اور اب وہ ترنگے کی عظمت کی بات کر رہے ہیں۔
معروف ہندی صحافی اور پروفیسر دلیپ منڈل نے ٹویٹ کیا: 'ترنگے کی عزت کی بات وہ سنگھی کر رہے ہیں جنھوں نے آزادی کے 52 سال تک اپنے ہیڈ کوارٹر پر کبھی ترنگا نہیں لہرایا اور یوم جمہوریہ پر تین امبیڈکر حامیوں نے ترنگا لہرا دیا تو ان پر مقدمہ کیا گیا۔ دیش بھکت (محب وطن) کا مطلب ان لوگوں کے لیے مسلم مخالفت ہے۔'

اس کے ساتھ انھوں نے مقدمہ نمبر بھی درج کیا ہے۔
 انھوں نے اپنے مختلف ٹویٹس میں یہ بھی لکھا کہ اتنی بڑی تعداد میں کسان دہلی میں داخل ہوئے لیکن کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، کوئی آگ نہیں لگائی، کسی کی دکان نہیں لوٹی وغیرہ۔
دوسری جانب معروف اداکار اور بی جے پی کے رہنما سنی دیول نے ٹویٹ کیا کہ ان کا دیپ سدھو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں یہ بات اس وقت کہی دیپ سدھو کے ساتھ  جب ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وزیراعظم نریندر مودی بھی نظر آتے ہیں۔
کانگریس رہنما اور رکن پارلیمان راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، چوٹ کسی کو بھی لگے نقصان ہمارے ملک کا ہے۔ ملک کے مفاد میں زراعت مخالف قانون واپس لو۔'

اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ اور کانگریس رہنما کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا کہ ٹریکٹر پریڈ میں تشدد کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے اور کسانوں سے اپیل کی کہ وہ دہلی سے نکل کر بارڈر پر آ جائیں۔
کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت نے کہا کہ پولیس نے کئی ٹریکٹرز کو نقصان پہنچایا ہے۔ انھیں اس کا ہرجانہ دینا ہوگا۔
دوسری جانب ریاست دہلی میں بر سر اقتدار عام آدمی پارٹی نے گذشتہ روز رونما ہونے والے وقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس نے کس طرح حالات کو اس قدر خراب ہونے دیا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ پرامن جدوجہد کو پرتشدد بنانے والے عناصر باہری تھے وہ کسان نہیں تھے اور یہ کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے  کے لیے کیا گیا ہے۔
کئی لوگوں نے  بابری مسجد پر سنہ 1992 میں ہونے والے حملے کی تصاویر اور گذشتہ روز لال قلعے کے میناروں اور گنبدوں پر چڑھے لوگوں کی تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ بابری مسجد پر حملہ کرنے والے تو دیش بھکت ہیں لیکن لال قعلے پر چڑھنے والے؟۔

شیئر: