Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا

کسانوں نے ہزاروں ٹریکٹروں کے ساتھ دلی کی سڑکوں پر اپنی علیحدہ پریڈ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
تو کسانوں کو آخر دلی میں داخل ہونے کی آزادی مل ہی گئی لیکن یوم جمہوریہ کے موقع پر حکومت انہیں روکتی بھی تو کس منہ سے؟ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ حکومت ہم نے ہی بنائی ہے اور ہمیں ہی دلی جانے سے روکا جارہا ہے، ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں بہت سے لوگ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی میں تھوڑا کنفیوز ہوجاتے ہیں لیکن اتنا سب کو یاد رہتا ہے کہ دونوں دن چھٹی رہتی ہے! یہ کچھ عید کی نماز کی طرح ہے، چونکہ سال میں صرف دو مرتبہ پڑھی جاتی ہے اس لیے آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ امام اکثر صفیں سیدھی کرانے کے بعد نماز کی ترکیب ریوائز کرا دیتے ہیں۔
تو پہلے کنفیوژن ختم کردیں۔ برطانوی راج سے آزادی تو 15 اگست 1947 کو ملی تھی لیکن دستور ہند اس کے تقریباً ڈھائی سال بعد 26 جنوری1950 کو عمل میں آیا تھا۔ اس دن انڈیا باضابطہ طور پر ایک ریپبلک بنا اور عوام کو باقاعدہ حکومتیں بنانے اور گرانے کا حق حاصل ہوگیا۔ بس یوم جمہوریہ اسی غیر معمولی حق کا جشن ہے۔
اسی عوام کا ایک طبقہ حکومت سے ذرا ناراض ہے۔ ان کی شکایت ہے کہ بھائی ہماری بھلائی کے لیے اگر کچھ کرنا ہے تو ضرور کیجیے، حکومتیں اسی لیے بنائی جاتی ہیں، لیکن ہم سے پوچھ تو لیتے، تھوڑا صلاح مشورہ کر لیتے کہ ہم کیا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی اچھا لگتا، یا الیکشن گزر جانے کے بعد ہماری رضا کی کوئی قیمت نہیں ہے؟
اس لیے انہوں نے ہزاروں ٹریکٹروں کےساتھ دلی کی سڑکوں پر اپنی علیحدہ پریڈ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں ہر ماڈل کا ٹریکٹر شامل ہے۔ امیر کا بھی غریب کا بھی۔ چلیے مانا غریبوں کے پاس ٹریکٹر نہیں ہوتے لیکن کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس غیر معمولی پریڈ میں ہر طرح کا کسان شامل ہے، چھوٹا بھی بڑا بھی، امیر بھی اور غریب بھی اور چاہے ان کی جو بھی سیاسی واسبتگی ہو، جو آج کے دور میں سب کی ہوتی ہے، لیکن مارچ میں وہ صرف کسان کی حیثیت سے شامل ہوئے۔
ایسا نظارہ دلی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں جب کسانوں نے اپنی علیحدہ پریڈ نکالنے کا اعلان کیا تو لگ رہا تھا کہ بات بگڑ بھی سکتی ہے۔
لیکن یہ ایک غیرمعمولی تحریک ہے اور جمہوریت کاجشن بھی۔ حکومت بظاہر نہ چاہتے ہوئے بھی کسانوں سے بات کر رہی ہے کیونکہ انڈیا کی سوا ارب عوام میں سے تقریباً نصف گزر بسر کے لیے کھیتی پر انحصار کرتے ہیں۔
جمہوریت کا کاروبار ووٹوں سے چلتا ہے اور اپنی مرضی سے ووٹ دے پانے کی ضمانت آئین میں شامل ہے۔ اس لیے روٹھوں کو منانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عام حالات میں کوئی سوال نہیں تھا کہ یوں پریڈ کی اجازت دیدی جاتی لیکن کسان اپنے فیصلے پر اڑے ہوئے تھے کہ پریڈ تو وہ ضرور نکالیں گے۔

حکومت بظاہر نہ چاہتے ہوئے بھی کسانوں سے بات چیت کر رہی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سچ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو یہ نہ مانتے ہوں کہ ملک میں زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اور کسانوں کی تحریک میں زیادہ تعداد شمالی انڈیا کے کسانوں کی ہی ہے، ان میں بھی پنجاب اور ہریانہ کے کسان زیادہ سرگرم ہیں۔ لیکن یہ سب مانتے ہیں کہ جس طرح یہ قوانین منظور کرائے گئے وہ غلط تھا اور اس حکومت کو شاید پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا ہے کہ پارلیمان میں اکثریت مل جانے سے من مانے انداز میں قانون سازی کا بلینک چیک نہیں مل جاتا۔
اس لیے حکومت نے کسانوں کے کچھ مطالبات پوری طرح مان لیے ہیں اور سب سے زیادہ متنازع تین قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے التوا میں رکھنے کی پیش کش کی ہے۔ لیکن کسان اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ حکومت قوانین واپس لے جس کے لیے حکومت تیار نہیں ہے۔
لیکن اس مرتبہ اور بھی بہت کچھ ایسا ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا، یا کم سے کم بہت زمانے سے نہیں ہوا۔ سرکاری پریڈ کو چھوٹا کر دیا گیا اور ملک کی فوجی قوت اور ثقافتی گنا گنی کی ایک جھلک دیکھنے آنے والوں کی تعداد بھی محددو کر دی گئی تھی۔ اس بار یوم جمہوریہ کے جشن میں کوئی مہمان خصوصی شریک نہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کو آنا تھا لیکن ان کے اپنے ملک میں کورونا وائرس کی حالت اتنی خراب ہے کہ انہوں نے دعوت قبول کرنے کے بعد باتھ کھڑے کر دیے۔

حکومت نے متنازع تین قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے التوا میں رکھنے کی پیش کش کی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ہوسکتاہے کہ وہ ایسے موقع پر نہ آنا چاہتے ہوں جب ہزاروں کسان دو مہینے سے دلی کی سرحدوں پر خیمہ زن ہیں اور متنازع قوانین پر حکومت کے ساتھ ان کی رسہ کشی چل رہی ہے۔ اگر جانسن دلی میں ہوتے اور کسان زبردسی پریڈ نکالنے کی کوشش کرتے تو ان سے کسانوں کی تحریک کے بارے میں ضرور پوچھا جاتا، خاموش رہتے تو تنقید کا سامنا ہوتا اور ان کے حق میں کچھ بول دیتے تو میزبان کی دل آزاری ہوتی۔
بہرحال، وجہ جو بھی ہو اور کسانوں کی تحریک کا جو بھی انجام ہو، وہ دلی کی سرحدوں پر جمے رہیں یا واپس لوٹ جائیں، قانون واپس کرانے کے بعد یا خالی ہاتھ، اس یوم جمہوریہ اور اس کی ٹریکٹر پریڈ کو یاد رکھا جائے گا۔

شیئر: