Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جو بائیڈن امریکہ کو بحران سے نکال سکیں گے؟

بائیڈن کی صدارت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آگے کیا ہو سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر جو بائیڈن کے غیرمعمولی دور میں ہر چیز معمول کے مطابق ہے۔ انہوں نے جمعرات کو اوول آفس میں کہا تھا کہ ’یہ ایک مصروف ہفتہ رہا۔‘
فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بائیڈن کا اشارہ ان ایگزیگٹو آرڈرز کی جانب تھا جو انہوں نے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد جاری کیے، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن سے لے کر ہیلتھ کیئر تک کے تمام فیصلوں کو تبدیل کیا گیا۔
تاہم 10 دنوں میں بائیڈن کی سب سے بڑی کامیابی امریکیوں کو یاد دلانا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں غیر متوقع طور پر کچھ نہیں ہوتا ہے۔
ٹوئٹر پر غصے کا کوئی اظہار نہیں۔ صحافیوں کو عوام کا دشمن نہیں کہا جا رہا۔ اپوزیشن پارٹی کو شیطان ثابت نہیں کیا گیا۔
روزانہ تفصیلی اور حقائق کے ساتھ، یہاں تک کہ ماہرین کی جانب سے کورونا، معیشت اور دوسرے موضوعات پر پھیکی پریفنگز بھی۔
ایک صدر اتحاد کی اپیل کرتا ہے اور اکثر عوام میں نظر آتا ہے لیکن ہمیشہ احتیاط سے سٹیج کا استعمال کرتا ہے اور وہ بھی زیادہ دیر کے لیے نہیں۔
سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن دنیا بھر کے سفارت کاروں کو یقین دلا رہے ہیں کہ جس امریکہ کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ چلا گیا تھا، وہ واپس آ گیا ہے۔
اس میں بڑی تبدیلی شامل ہے۔ پھر بھی یہ قابل ذکر نہیں۔
جیسے رات کو دیر سے چلنے والے شو کے میزبان سٹیفن کولبرٹ نے مزاحیہ انداز میں بائیڈن اور ٹرمپ کے کورونا پلان میں بنیادی فرق بتاتے ہوئے کہا ’یہ ایک ہے۔‘

’احمق یہ وائرس ہے‘

کووڈ 19 پانچ لاکھ امریکیوں کو مارنے کے لیے اپنے راستے پر ہے۔
جمعرات کو جاری کیے گئے ڈیٹا میں 1946 کے بعد سے پہلی بار معیشت میں تیز رفتار زوال کو دکھایا گیا ہے۔ 2020 میں جی ڈی پی کم ہو کر تین اعشاریہ پانچ فیصد آئی ہے، جو ریستوران کے بند ہونے، خالی ایئر لائنز اور بیروزگار ہوئے ورکرز کی عکاسی کرتی ہے۔
لہٰذا بائیڈن کی صدارت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آگے کیا ہو سکتا ہے۔
امریکیوں کو ویکسین لگائیں، معیشت کو بحال کریں تو بائیڈن تباہی کو فتح میں بدل سکتا ہے۔
جبکہ ناکامی ان کی ٹرم کو ختم کر سکتی ہے۔

شیئر: