Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’علی سدپارہ قومی ہیرو ہیں‘، نذیر صابر کی اپنے بیان پر معذرت

نذیر صابر پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما نذیر صابر نے کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے علی سدپارہ کو پاکستان کا قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں اپنے الفاظ پر معافی مانگ لی ہے۔
اردو نیوز اور دیگر میڈیا اداروں کو بھیجے گئے اپنے وضاحتی بیان میں انہوں نے چند دن قبل دیے گئے انٹرویو میں علی سدپارہ کے لیے اپنے الفاظ کے چناؤ کو غلط قرار دیا اور ان کے اہل خانہ سے دل آزادی پر معذرت کی ہے۔
چند دن قبل اپنے یوٹیوب انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ علی سدپارہ آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری کے پورٹر تھے اور وہ معاوضے کے عوض ان کے ساتھ کوہ پیمائی کرتے تھے۔
یاد رہے کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیما جمعہ پانچ فروری کو کے ٹو سر کرتے ہوئے لاپتہ ہو گئے تھے۔
اپنے وضاحتی بیان میں نذیر صابر نے کہا کہ ایک شخص ماسک پہن کر ان سے انٹرویو کر رہا تھا اور اس نے جلدی جلدی سے بہت سارے سوالات پوچھے جن کے جواب دینے میں ان سے الفاظ کا چناؤ غلط ہو گیا۔
نذیر صابر نے کہا کہ ’علی سدپارہ کو اعلیٰ ترین قومی ایوارڈ ملنا چاہیے وہ قومی ہیرو ہیں اور پاکستان کے واحد کوہ پیما ہیں جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے اوپر آٹھ چوٹیاں سر کر رکھی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نانگا پربت کو سردیوں میں سر کرنا علی سدپارہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ میں انہیں دس گیارہ برس سے جانتا ہوں وہ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھے۔‘

نذیر صابر نے کہا کہ نانگا پربت کو سردیوں میں سر کرنا علی سدپارہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’علی سدپارہ ہماری ہی روایات کو آگے بڑھا رہے تھے۔ وہ ہماری کوہ پیما فیملی کے رکن تھے۔ میں نے ان کے ساتھ کوہ پیمائی بھی کی ہے۔ ذاتی طور پر وہ انتہائی خوش مزاج اور عاجز انسان تھے۔
نذیر صابر کا کہنا تھا کہ ان کے جواب میں غلطی تھی مگر بدنیتی نہیں تھی۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا جو لوگ علی سدپارہ پر خطرناک موسم میں چوٹی سر کرنے پر تنقید کر رہے ہیں ان کو جواب دیں کہ یہ علی کا فیصلہ نہیں تھا ۔فیصلہ ان کا ہوتا ہے جو باہر سے مہم پر آتے ہیں ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
’میں بلواسطہ پیغام دے رہا تھا کہ وہ معاشی طور پر وسائل والا شخص نہیں تھا۔ اس کے پاس وسائل نہیں تھے۔ اگر وسائل ہوتے تو نیپال کے کوہ پیماؤں سے قبل سردیوں میں کے ٹو سر کر دیتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر میرے الفاظ سے علی کی فیملی یا جان سنوری اور دوسرے کوہ پیماؤں کے خاندان کے افراد کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں صدق دل سے معافی مانگتا ہوں۔‘

لاپتہ کوہ پیماؤں میں آئس لینڈ کے جان سنوری بھی ہیں (فوٹو: فیس بک جان سنوری)

نذیر صابر  نے بتایا کہ ’میں ہمیشہ ان کی خدمات کا معترف رہا ہوں۔ لوگ جیلسی کی بات کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے میں اپنی کامیابیوں پر خوش ہوں اور ان کی کامیابیوں پر بھی خوش ہوں۔ مجھ سے بہتر کم لوگ انہیں سمجھتے ہیں۔ میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں۔‘
نذیر صابر کا کہنا تھا کہ کے ٹو پر دس گھنٹے سے زیادہ زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے اسی لیے انہوں نے جمعہ کی رات کو ساجد سدپارہ کے لیے پیغام بھیجھا تھا کہ انہیں ہر صورت میں نیچے آ جانا چاہیے اور جذباتی ہو کر والد کی تلاش کے لیے دوبارہ اوپر نہیں جانا چاہپیے ورنہ نقصان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے علی سدپارہ کے خاندان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

شیئر: