Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پورٹر‘ سے کوہ پیما بننے تک کا سفر طے کرنے والے علی سدپارہ کون ہیں؟

علی سد پارہ نے 2018 میں کے ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹرعلی سدپارہ)
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت غیر ملکی کوہ پیماؤں کا تاحال کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ جبکہ ان کی تلاش کے لیے پیر کو بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
الپائن کلب کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پہاڑوں پر بادل چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے  کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے گذشتہ روز بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے والد کو آخری مرتبہ ’بوٹل نیک‘ سے بلندی پر چڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
 
2 فروری 1976 میں سکردو کے علاقے سدپارہ میں پیدا ہونے والے علی سدپارہ واحد پاکستانی کوہ پیماہ ہیں جنہیں 8 ہزار میٹر سے زائد 14 بلند چوٹیوں میں سے 8 چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔  
کئی ماہر کوہ پیماؤں کی طرح علی سدپارہ نے بھی بطور ’پورٹر‘ اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ سکردو میں آنے والے غیر ملکی کوہ پیماؤں کا سامان کیمپس تک پہنچانے اور کوہ پیمائی کی مہم کے دوران راہ ہموار کرنے کا کام سر انجام دینے کے لیے علی سدپارہ کو یومیہ تین ڈالر بطور معاوضہ ملتے تھے۔ 
سکردہ کا علاقہ سدپارہ پاکستان میں بہترین ’پورٹرز‘ کے لیے جانا جاتا ہے لیکن علی سدپارہ نے کوہ پیمائی کو کیریئر بناتے ہوئے 2004 میں پہلی بار کے ٹو سر کرنے کی مہم میں بطور کوہ پیما حصہ لیا تھا۔
الپائن کلب کے مطابق علی سدپارہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاچن پر ہونے والے تصادم کے دوران بھی پاکستان فوج کے لیے بطور پورٹر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔  
علی سدپار 2016 میں موسم سرما میں پہلی بار نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ 2015 میں علی سدپارہ اور ان کی ٹیم نے موسم سرما میں نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا لیکن وہ ناکام رہے تاہم 2016 میں وہ یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  
علی سدپارہ نانگا پربت کی چوٹی چار بار سر کر چکے ہیں جب کہ 2018 میں کے ٹو سر کرنے کا اعزاز بھی وہ حاصل کر چکے ہیں۔ 
2018 میں علی سدپارہ نے ہسپانوی کوہ پیما الیکس ٹیکسون کے ہمراہ موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بغیر آکسیجن کے سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا لیکن وہ ناکام رہے۔  

علی سدپارہ نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ’پورٹر‘ کیا تھا۔ فوٹو: ٹوئٹر علی سدپارہ

5 فروری 2021 کو علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد سدپارہ، آئیس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے پوبلو موہر کے ہمراہ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ ساجد سدپارہ تکنیکی وجوہات کے باعث کیمپ واپس لوٹ آئے جبکہ علی سد پارہ اور دیگر دو کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کرنے کی مہم کو جاری رکھا۔
جمعے کی رات تینوں کوہ پیماؤں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا جس کے بعد گزشتہ تین روز سے آرمی ایوی ایشن کی جانب سے سرچ آپریشن جاری ہے لیکن تاحال تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔  
ساجد سد پارہ نے اتوار کو مقامی میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو کے ٹو کی ’بوٹل نیک‘ سے آگے جاتے ہوئے دیکھا جس کے بعد ان سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔  
علی سد پارہ کے ہمراہ لاپتہ ہونے والے دیگر دو کوہ پیماؤں کی تلاش بھی تاحال جاری ہے اور اس وقت سب پرامید ہیں کہ پہاڑوں سے محبت کرنے والے ان کوہ پیماؤں کے حوالے سے جلد اچھی خبر ہی سننے کو ملے۔

شیئر: