Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چائے پانی سے انکار‘ پنجاب پولیس کی کرپشن کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم

پنجاب پولیس کے سرکاری فیس بک پیج پر جاری ہونے والا اشتہار (فوٹو: پنجاب پولیس، فیس بک)
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی پولیس کے سرکاری فیس بک پیج پر ’چائے پانی‘ کے حوالے سے ایک ایسا اشتہار سامنے آیا ہے جسے وائرل ہونے میں بہت کم وقت لگا، اس کو عام بول چال کے سے انداز میں لکھا گیا گیا ہے اور کرپشن کو ’چائے پانی‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ 
 اشہار کی عبارت کچھ یوں ہے ’سے نو ٹو چائے پانی ٹرینڈ ۔۔ اگر کوئی پولیس آفیسر آپ سے جائز کام کے بدلے پیسوں کا مطالبہ کرے تو بلاخوف اس کی شکایت 8787 پر کریں۔‘
 بس اس اشتہار کا لگنا تھا کہ وائرل ہو گیا۔ نہ صرف صارفین نے اسے ہزاروں کی تعداد میں شیئر کیا بلکہ اس کے نیچے کمنٹس کی بھی بھرمار ہو گئی۔  
کمنٹس کرنے والوں نے مہم پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا۔ کئی لوگوں نے تو اس بات کو سراہا ہے تو کئی نے اس پوسٹ کے نیچے ہی شکایات کے انبار لگا دئے اور جس جس سے ’چائے پانی‘ کسی بھی پولیس والے نے مانگا اس کا نام اور تھانے میں اپنی شکایت کا نمبر بھی لکھ دیا۔  

’چائے پانی‘ کلچر ہے کیا؟ 

اگر آپ پاکستان کے شہری ہیں اور کسی نہ کسی سرکاری دفتر میں آپ کو کوئی کام پڑتا رہتا ہے تو اس لفظ سے آپ بخوبی آگاہ ہوں گے۔ پنجاب کے ڈی آئی آپریشن سہیل احمد سکھیرا جو کو پولیس کے میڈیا ونگ کے سربراہ بھی ہیں، نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چائے پانی کلچرکو کچھ ایسے بیان کیا ہے ’پہلے تو ہم آپ کو یہ بتائیں کہ ہم نے اپنی مہم میں چائے پانی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ یہ اصل میں رشوت کے لیے استعمال ہونے والا سب سے عام لفظ ہے۔ ویسے رشوت کے مساوی یہ ایک ہی لفظ نہیں بلکہ ’مٹھائی‘، ’مٹھی گرم کرنا‘ ، ’ساڈا حصہ‘ ، ’خرچہ پانی‘ اس طرح کے کئی لفظ ہیں جو رشوت ستانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔  

فیس بک پر اشتہار کے نیچے لوگوں نے پولیس کے حوالے سے شکایات کے انبار لگا دیے (فوٹو: اے ایف پی)

 انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’معاشرے میں رشوت کلچر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ آپ اس کو راتوں رات ٹھیک نہیں کر سکتے اور اس سے پہلے بھی میں یہی کہوں گا کہ جب تک آپ مرض کی اس کے نام کے ساتھ تشخیص نہیں کریں گے آپ اس کا علاج بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ رشوت کے لیے عام استعمال ہونے والا لفظ جان بوجھ کر ہم نے اس مہم کا حصہ بنایا اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں سے براہ راست اسی طرح کے لفظ بول کر رشوت لی جاتی ہے۔ جب ہم خود کھل کر اس طرح بولیں گے تو لوگوں کے ہمارے اوپر اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا کہ ہم اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ ہم صرف آگاہی نہیں پھیلا رہے بلکہ اس کا حل بھی ساتھ ہی پیش کر رہے ہیں‘ 

ڈی آئی جی آپریشن کہتے ہیں کہ اشتہار میں ’چائے پانی‘ کے الفاظ جان بوجھ کر استعمال کیے ہیں تاکہ عام لوگوں کو آسانی سے سمجھ آ سکے (فوٹو: سوشل میڈیا)

ڈی آئی جی سہیل سکھیرا کہتے ہیں کہ ’چائے پانی کی بات جو بھی کرے اس کی شکایت سیدھی آئی جی آفس میں لگی مفت ہیلپ لائن پر کی جائے۔ اس کے بعد خود کار طریقے سے ایک نظام حرکت میں آتا ہے اور رشوت کا تقاضا کرنے والے افسر یا سپاہی کی انکوائری شروع ہو جاتی ہے اور یوں اس کلچر کی تیزی سے حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اورعوام کا پولیس پر اعتماد بھی بڑھ رہا ہے‘ 

چائے پانی کلچر اتنی آسانی سے ختم ہو گا؟ 

سوشل میڈیا کا استعال لوگوں میں آگاہی اور پھر لوگوں کا کسی نہ کسی حد تک چائے پانی کلچر کے خلاف ان اقدامات کو استعمال کرتے ہوئے شکایات درج کروانے سے رشوت ستانی کا یہ کلچر ختم ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز کی ڈائریکٹر پروفیسل روبینہ ذاکر نے کچھ یوں گیا کہ ’سوسائٹی میں رشوت ستانی کے کلچر کا ہونا ایک طرح کی سماجی ناہمواری بھی ہے۔

’8787 پر کال آتے ہی خود کار طریقے سے ایک نظام حرکت میں آ جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لوگ اس طرح سے کلچر سیکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہاں رشوت عام ہے مسئلہ یہ ہے کہ لوگ رشوت کیوں لیتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا۔ آپ ایک سرکاری ملازم کو تنخواہ کتنی دیتے ہیں؟ کیا اس تنخواہ میں اس کے بچے آزادی سے معاشرے کے دیگر لوگوں کے بچوں کے ساتھ اسی طرح کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟ ان کی کوالٹی آف لائف کیا ہے؟ یہ اصل میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ طبقاتی فرق کو کم سے کم کرے تو رشوت جیسی برائیاں چھوٹے پیمانے پر تو اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ہمارے سامنے دنیا کے بہت سے معاشروں نے اس برائی سے اپنے آپ کو بچایا ہے اس لیے یہ سادہ نہیں بہت اہم بات ہے۔‘

شیئر: