Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ہیوی مینڈیٹ ہی نواز شریف کا بڑا دشمن ثابت ہوا

17 فروری 1997 کو محمد نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیر اعظم بنے (فوٹو: سوشل میڈیا)
24  برس قبل 17 فروری 1997 کو میاں محمد نواز شریف اپنے سیاسی مخالفین کو چت کرکے دوسری بار وزارت عظمی کا حلف اٹھا رہے تھے۔ انہیں بظاہر ’ہیوی مینڈیٹ‘ کی محفوظ چھتری اور عددی طور پر کمزور اپوزیشن میسر آئی تھی۔ آنے والے دنوں میں دو تہائی اکثریت کی یہ طاقت ہی ان کی کمزوری ثابت ہوئی۔
ٹھیک تین برس دس ماہ قبل 17 اپریل 1993 کو ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کا باغیانہ نعرہ لگا کر اقتدار سے محروم ہونے والے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کے اسباب اور وجوہات کیا تھیں؟
فروری 1997 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے 207 کے ایوان میں 137 نشستیں جیت کر دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ انہیں پہلی بار اپنے آبائی صوبے پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی غالب اکثریت حاصل ہوئی۔ 1993 کے الیکشن میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 111 میں سے 52 سیٹوں کے مقابلے میں اس بار انھیں 114 میں سے 107 پر فتح حاصل ہوئی۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ماضی میں 240 میں سے 106 حلقوں میں کامیابی اب کے بار 211 حلقوں میں فتح تک پہنچ گئی۔
اس غیرمعمولی اکثریت میں پنجاب کا بہت بڑا حصہ تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ میں ان کے حریف جونیجو گروپ کا شکست و ریخت  سے دوچار ہو کر غیر موثر ہو جانا تھا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے صدر محمد خان جونیجو کی 18 مارچ 1993 کو اچانک رحلت کے ایک ماہ بعد نواز شریف مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔
1993 کے الیکشن میں پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 18 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی سے مل کر حکومت بنانے والی جونیجو لیگ کا 1997 میں پنجاب سے صفایا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے لیے مخلوط حکومت اس سے بھی تباہ کن ثابت ہوئی۔ صوبے میں اس کی نشستیں 94 سے کم ہو کر صرف دو رہ گئیں اور قومی اسمبلی میں سندھ سے 18 نشستوں کے سوا ملک بھر سے کوئی سیٹ نہ مل سکی۔

بے نظیر بھٹو نے فاروق لغاری پر نواز شریف کو اقتدار میں لانے کی سازش کا الزام لگایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب میں نواز شریف کے مخالف گروپ کے نمایاں قائدین حامد  ناصر چٹھہ اور میاں منظور وٹو شکست سے دوچار ہو گئے۔
عام خیال کے برعکس پنجاب کی وزارت اعلیٰ گجرات کے چوہدریوں کے بجائے اپنے بھائی کو سونپنے  کا فیصلہ حیران کن تھا۔ اس سوچ کے پیچھے ماضی کے تجربات اور پنجاب سے وفاق کے لیے کسی سیاسی و انتظامی چیلنج کا راستہ روکنا تھا۔
1993 کی سیاسی اور قانونی جنگ کے دوران گورنر پنجاب اور منظور وٹو سے ان کی سیاسی کشیدگی ایک موقع پر وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ممکنہ تصادم تک جا پہنچی تھی۔
صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا ) میں ان کے ساتھی مہتاب عباسی باآسانی وزیراعلیٰ بن گئے۔ بلوچستان میں چار سیٹوں کے ساتھ بی این پی، جے ڈبلیو پی اور جے یو آئی ایف کی سردار اختر مینگل کی قیادت میں مخلوط حکومت میں مسلم لیگ بھی شامل ہوگئی۔
سندھ میں حکومت سازی کے لیے نواز شریف کو ایم کیو ایم سے ہاتھ ملانا پڑا، لیاقت جتوئی 14 ممبران اسمبلی کے ساتھ مسلم لیگ کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

نواز شریف کی جانب سے وزارت اعلیٰ گجرات کے چوہدریوں کے بجائے اپنے بھائی کو سونپنے  کا فیصلہ حیران کن تھا (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف نے ابتدا میں صرف سات رکنی مختصر کابینہ کا انتخاب کیا، کامرس اسحاق ڈار، داخلہ چوہدری شجاعت حسین، پٹرولیم چوہدری نثار، وزارت خارجہ گوہر ایوب، خزانہ سرتاج عزیز اور بہبود آبادی عابدہ حسین کے حصے میں آئی۔
پانچ ماہ بعد نو وفاقی وزرا اور چار وزرائے مملکت حکومت کا حصہ بنے۔ اطلاعات اور قانون کے لیے مشیر مقرر کیے گے۔
پاکستان میں 2008 کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کے لیے سینیٹ میں اکثریت ان کی آدھی مدت گزرنے کے بعد میسر آتی رہی ہے۔ نواز شریف اس حوالے سے خوش نصیب تھے۔
12 مارچ 1997 کو سینیٹ کی نصف نشستوں پر انتخاب ہوا۔ ایوان بالا کے 87 کے ہاؤس میں ان کی سیٹوں کی تعداد 56 ہو گئی۔
اس اکثریت کے بل بوتے پر انہوں نے پہلے پانچ ماہ میں آئین میں دو ترامیم کر ڈالیں۔ خصوصی عدالتوں کے قیام، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور احتساب بیورو کے قیام کے بل دونوں ایوانوں سے باآسانی پاس کروا لیے۔
اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی اختیار اور فلور کراسنگ کے قانون میں تبدیلی کی ترامیم سے ایوان صدر کے ساتھ ماضی کی کشیدگی نئے انداز میں سامنے آئی۔
صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ نواز شریف کے ٹکراؤ سے ان کی شبہیہ مزاحمت پر آمادہ رہنما کی بننے لگی۔ سینیٹر پرویز رشید اور ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انور جیسے بائیں بازو کے کارکن ان کی طرف کھنچے چلے آئے۔ 

1993 میں محمد خان جونیجو کی اچانک وفات کے ایک ماہ بعد نواز شریف مسلم لیگ کے صدر بن گئے (فوٹو: سوشل میڈیا)

نواز شریف کی سیاست کی بنیاد مزاحمت تھی یا مصالحت، اس تصور اور حقیقت میں فرق کے لیے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور نگران سیٹ اپ کے عرصہ اقتدار کے دوران وقوع پذیر کچھ واقعات کا جائزہ حقیقت تک پہنچنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
الیکشن سے ایک ماہ پہلے جنوری 1997 میں نگران کابینہ کی سفارش پر صدر فاروق لغاری نے رول آف بزنس 1973 میں ترمیم کی۔
جس کے تحت ’کونسل فار ڈیفنس اینڈ سکیورٹی‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ اس کا کام دفاعی اور قومی سلامتی کے امور کا جائزہ لینا تھا۔
نواز شریف کی حکومت میں خزانہ اور خارجہ امور کے سابق وزیر سرتاج عزیز کی کتاب Between Dreams and Realities  کے مطابق فاروق لغاری کی اس ادارے کی سربراہی سے طاقتور حلقوں کو یقین دلانا تھا کہ نواز شریف الیکشن جیت کر وزیر اعظم بننے کی صورت میں بھی اس کونسل کے زیر نگرانی کام کریں گے۔ 
سرتاج عزیز لکھتے ہیں ’نواز شریف نے اپنی جماعت کے اہم ترین رہنماؤں کو اس ادارے کے بننے پر کوئی بھی ردعمل دینے سے منع کر دیا تھا، ممکن ہے کہ وہ اپنی رضامندی سے پہلے ہی آگاہ کر چکے ہوں۔‘

بے نظیر بھٹو نے فاروق لغاری پر نواز شریف کو اقتدار میں لانے کی سازش کا الزام بھی لگایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اس کتاب میں نومبر 1996 میں بے نظیر حکومت کی برطرفی سے ذرا قبل بیگم عابدہ حسین کے گھر پر نواز شریف کی  شاہد حامد سے خفیہ ملاقات کا ذکر بھی موجود ہے، جس میں فاروق لغاری نے مبینہ طور پر کرپشن اور طاقت کے غلط استعمال پر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے لیے انہیں اعتماد میں لیا تھا۔
الیکشن سے قبل اخبارات میں بے نظیر بھٹو کے گورنر پنجاب خواجہ طارق رحیم کے ساتھ خفیہ ملاقات اور ایوان صدر میں الیکشن مانیٹرنگ سیل کے قیام کا چرچا ہونا شروع ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو نے فاروق لغاری پر نواز شریف کو اقتدار میں لانے کی سازش کا الزام بھی لگایا۔ 
پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی آپ بیتی  Law Courts in A Glass House میں اس حوالے سے متعدد واقعات کی تفصیل موجود ہے۔
ایک غیر ملکی جریدے ’دی فار ایسٹرن اکنامک ریویو‘ کی رپورٹ کے حوالے سے وہ اپنی  کتاب میں  یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نگران وفاقی کابینہ میں احتساب یا انتخاب کے حوالے سے اختلاف رائے موجود تھا۔
کابینہ کے کچھ اراکین نے الزام لگایا کہ صدر فاروق لغاری نے نواز شریف سے ڈیل کر لی ہے۔ بدلے میں نواز شریف انہیں دوسری دفعہ صدر بنوائیں گے۔
سجاد علی شاہ کے مطابق فاروق لغاری نے نوازشریف پر سے مالیاتی معاملات میں خطرہ کم کرنے کے لیے نئے بینکنگ قوانین بھی بنوائے تھے۔

بقول سرتاج عزیز نواز شریف اہم نوعیت کے فیصلے بغیر مشاورت سے کرنے لگے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

سجاد علی شاہ مزید لکھتے ہیں کہ ’کابینہ کا ایک حصہ انتخابات سے پہلے احتساب کا حامی تھا۔ وہ الیکشن کا دو سال کے لیے التوا چاہتے  تھے۔ اس مقصد کے لیے ریفرنڈم کروانے کی تجویز بھی زیر غور رہی۔‘
مصنف کے مطابق ’فوج الیکشن کے طے شدہ وقت پر کروانے کی حامی تھی اور سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی تھی۔‘
سرتاج عزیز نے بھی الیکشن کے التوا اور احتساب کو بروئے کار لانے کی تجاویز کے حوالے سے اپنی کتاب میں تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق 1996میں جسٹس ریٹائرڈ مجاہد مرزا کا احتساب کمشنر بننا اور سٹیٹ بینک کا 450 سیاستدانوں سمیت 15000 نادہندگان کی فہرست جاری کرنا ان شبہات کو تقویت دیتا تھا کہ کچھ عناصر الیکشن کا التوا چاہتے تھے۔
سرتاج عزیز کے مطابق معاشی حالات کی خرابی اور غیر ملکی امداد کی کمی نے صدر فاروق لغاری کو اس طرح کی کسی کوشش سے باز رکھا۔ وہ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کے طے شدہ وقت پر انتخابات میں کردار کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
یہ جنرل جہانگیر کرامت ہی تھے جنہوں نےایک بار نواز شریف حکومت کو برطرفی سے بچایا۔
حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی 10 ماہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان وزیراعظم ہاؤس میں پریشانی کے عالم میں صدر کی طرف سے اسمبلی تحلیل کرنے کے ممکنہ حکم جاری ہونے کی تشویش میں مبتلا بیٹھے تھے۔ 
سرتاج عزیز کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ’وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کے ممبران اور بڑی تعداد میں ممبران اسمبلی کی نظریں ایوان صدر پر لگی ہوئی تھیں، جہاں آرمی چیف جنگیر کرامت اور فاروق لغاری کی ملاقات جاری تھی۔
ان کی کتاب کے مطابق صدر نے ان کی طرف سے اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں آرمی چیف سے مدد مانگی تو جنرل جہانگیر کرامت کا جواب تھا ’میں جمہوری اصولوں پر یقین رکھنے والا ہوں اور آئین اور قانون کے خلاف کوئی چیز نہیں کر سکتا۔‘

1993 میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کے واضح موقف نے صورت حال  بدل ڈالی، وزیر اعظم اور ان کے رفقا جو تھوڑی دیر قبل برطرفی کی دستاویز کے منتظر تھے اب سرجوڑے صدر فاروق لغاری کے مواخذے  کا متن ڈرافٹ کرنے لگے، صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگلے روز فاروق لغاری صدارت کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
نواز حکومت کو بچانے والے جہانگیر کرامت کو انہی کے دور حکومت میں اکتوبر 1998 میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز دینے پر استعفی دینا پڑا تھا۔ 
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ان کی برطرفی سپریم کورٹ نے ختم کر دی تھی۔ دس ججوں کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے واحد جج سجاد علی شاہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں چیف جسٹس تھے۔
ان کی طرف سے سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تقرری کی سفارش نواز شریف کو منظور نہ تھی۔ بعد ازاں خصوصی عدالتوں کے قیام کے حکومتی فیصلے کو سجاد علی شاہ نے متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کی کوشش قرار دیا۔
یہیں سے دونوں کے درمیان اختلاف کا آغاز ہوا جو بعد میں کھلی جنگ میں بدل گیا۔ نواز شریف کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ پیش ہونا پڑا۔
تناؤ اور تلخی بھرے واقعات کا نقطہ عروج سپریم کورٹ پر حکومت کے حامیوں کا حملہ تھا۔ سجاد علی شاہ پر دوسرا حملہ سپریم کورٹ کے اپنے ساتھی ججوں نے کیا۔ ان کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے کر سپریم کورٹ سے رخصت کر دیا۔
ریاست کے تین طاقت ور اداروں کے ساتھ چپقلش اور محاذ آرائی نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کی تمام کامیابیوں کے تذکرے کو دھندلا دیتی ہے۔
بقول سرتاج عزیز ’ہیوی مینڈیٹ‘ ان کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوا۔ جس نے انہیں اپنے قریبی رفقا اور کابینہ ممبران سے دور کر دیا۔ وہ اہم نوعیت کے فیصلے بغیر مشاورت سے کرنے لگے۔ ایسے ہی ایک فیصلے نے نہ صرف ان کی حکومت کو چلتا کر دیا بلکہ جیل اور طویل جلاوطنی کا عذاب بھی جھیلنا پڑا۔ 

شیئر: