Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شریف خاندان کا ایک اور باب بند ہوا

نواز شریف کی والدہ خاندان کو جوڑے رکھنے والی قوت رہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
ملک کے اہم معاشی اور سیاسی خاندان، اتفاق گروپ کے سربراہ اور شریف خاندان کے جد میاں محمد شریف کی اہلیہ، آپا شمیم اختر بھی جہان فانی سے رخصت ہوگئیں، یوں شریف خاندان کی یادوں کا ایک اہم باب بند ہو گیا۔
آپا شمیم اختر میاں نواز شریف کی مزاحمتی سیاست اور میاں شہباز کی مفاہمتی سیاست کا واحد مرکز ثقل تھیں، دونوں کی والدہ ہونے کے باعث ان دونوں کے گلے شکوؤں کی آخری اپیل انہی کے پاس آتی تھی، عام طور پر وہ شہباز شریف کو بڑے بھائی سے رعایتیں لے کر دینے میں ممد و معاون ثابت ہوتی تھیں۔ 
اسی طرح وہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی دادی ہونے کے سبب دونوں میں انصاف کرنے والا واحد فورم تھیں۔ ایک موقع پر جب حمزہ شہباز کو اپنی دوسری بیوی، خاندانی تقریبات میں لانے کی اجازت نہیں تھی آپا شمیم نے حمزہ کو اسے لانے کی اجازت دے کر حمزہ شہباز شریف کا حوصلہ بڑھا دیا۔
آپا شمیم اختر آخری دنوں میں یادداشت کھو بیٹھی تھیں مگر میاں نواز شریف روزانہ والدہ کے ساتھ گپ شپ کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ والدہ اپنے بیٹے نواز شریف کو اپنا بھائی سمجھنے لگتیں اور ان سے اپنے بچپن اور والدین کی باتیں کرتیں۔ میاں نواز شریف آخری سانس تک والدہ کا دل بہلاتے رہے، ان کے علاج معالجے اور ادویات و کھانے کا خود خیال رکھتے۔ جاتی عمرا میں میاں شریف اور بیگم شمیم الگ گھر میں رہتے تھے۔ بیگم شمیم بیمار ہوئیں تو میاں نواز شریف انہیں اپنے گھر لے آئے اور اپنے ساتھ والے کمرے میں رکھا۔ میاں صاحب لندن میں تھے جبکہ والدہ جاتی عمرا تھیں۔ روزانہ ان کے ڈاکٹروں سے بات کرتے، مریم نواز سے ان کی ادویات اور علاج معالجے پر بات چیت کرتے۔ بعد ازاں لندن گئے تو انہیں بھی اپنے پاس بلا لیا تا کہ وہ خود ان کا خیال رکھ سکیں۔

نواز شریف کی اہلیہ اور بیٹی سیاست میں متحرک ہوئیں، البتہ والدہ کا گھریلو کردار خاصا اہم رہا (فوٹو: ٹوئٹر)

اچھے وقتوں کا ذکر ہے کہ میاں نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ کا دور تھا میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر اپنے والد میاں شریف سے ملنے اسلام آباد سے جاتی عمرا لاہور آتے۔ اتوار کو میاں شریف اور شمیم اختر کے گھر سارے خاندان کی میٹنگ ہوتی، عام طور پر میٹنگ گھر کے گول کمرے میں ہوتی جہاں فرشی نشست جمتی اور کبھی شب دیگ اور کبھی مٹن پلاؤ یا پالک گوشت کی دعوت کا انتظام ہوتا، بعد ازاں کشمیری گلابی چائے سے سب مہمانوں کی تواضع ہوتی۔
گول کمرے کی اس نشست میں خاندانی اور سیاسی فیصلے ہوتے۔ اسی زمانے میں ’اباجی‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی، مطلب یہ تھا کہ ملک کے فیصلے ابا جی یعنی میاں شریف کرتے ہیں بہرحال ان تمام محفلوں کی میزبان شمیم اختر المعروف ’آپا جی‘ ہوتیں، فیصلہ کن کردار تو میاں شریف کا ہوتا تھا مگر آپا شمیم کا ووٹ بھی ہر معاملے میں اہم ترین ہوتا تھا۔
شریف خاندان کی خواتین کلثوم نواز شریف، مریم نواز شریف اور آپا شمیم اختر کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بیگم شمیم اختر نسبتاً غیر سیاسی اور خاموش طبع تھیں، وہ بیٹوں، پوتوں اور پوتیوں کی سیاست میں خیر سگالی اور دعاؤں تک محدود رہیں جبکہ بیگم کلثوم نسبتاً زیادہ متحرک اور خاوند کو روزانہ کی بنیاد پر ایڈوائس فراہم کرتی تھیں۔ مریم نواز نے بھی اپنی والدہ کے اس رول کو برقرار رکھا اور والدہ سے ہٹ کر خود بھی اپنے لیے سیاسی کردار بھی طے کروا لیا۔ بیگم شمیم اختر مگر روایتی خاندان کی روایتی والدہ تھیں۔ سب کے لیے سراپا شفقت اور خاندان کے اتحاد کی علامت۔

آپا شمیم اختر نواز شریف کی مزاحمتی اور میاں شہباز کی مفاہمتی سیاست کا واحد مرکز ثقل تھیں (فوٹو: ٹوئٹر)

میاں شریف اپنی وفات سے پہلے میاں نواز شریف کو خاندان کا سربراہ مقرر کر گئے تھے۔ بیگم شمیم اختر بھی خاندانی مشوروں کے حوالے سے میاں نواز شریف کے حتمی فیصلوں کو مانتی رہیں، تاہم چھوٹے موٹے خاندانی گلے شکوؤں کے تدارک کے لیے وہ اپنا کردار بخوبی نبھاتی رہیں۔
بیگم شمیم اختر کو اپنے بیڈن روڈ والے بھائی عبدالحمید بٹ سے بہت پیار تھا۔ اپنے بیٹے عباس شریف کی شادی بھی اپنے اسی بھائی کی بیٹی سے کی۔ آخری ایام میں اپنی یادداشت کھونے کے دنوں میں اسی بھائی کو بہت یاد کرتی رہیں۔ مریم نواز شریف کے بقول میاں نواز شریف کو اپنا وہ بھائی تصور کرتے ہوئے باتیں کرتی رہتیں۔
بیگم شمیم اختر کی رحلت، بیمار نواز شریف کے لیے ذاتی المیے کے ساتھ ساتھ ایک خاندانی المیہ ہے۔ خاندان کے اتحاد کی علامت کی موت سے بظاہر خاندانی اتحاد پر کوئی فوری اثر تو نہیں پڑے گا لیکن رشتوں کو مضبوط کرنے والی زنجیر ٹوٹنے سے بہر حال کمزوری تو آتی ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ والدہ اپنے بیٹے نواز شریف کو اپنا بھائی سمجھنے لگتیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

جاتی عمرا کے چھوٹے سے خاندانی قبرستان میں میاں شریف، میاں عباس شریف، کلثوم نواز شریف کے ساتھ ہی بیگم شمیم اختر دفن ہوں گی اور جس طرح باقی قبروں پر روزانہ سرخ اور زرد پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے بیگم شمیم اختر بھی گل پوشی سے سرفراز ہوا کریں گی۔ شریف خاندان نے کسی خاندانی شادی کی تقریب میں شرکت کرنی ہو یا کسی کسی جلسے میں جانا ہو تو وہ پہلے جاتی عمرا کی ان قبور پر حاضری دیتے ہیں اور پھر تقریب میں جاتے ہیں، اب وہ اپنی سوئی ہوئی ماں کو یہیں سے سلام کر کے جایا کریں گے۔

شیئر: