Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان: مجرموں کی گرفتاری کے لیے ’جدید آلات دستیاب نہیں‘

زیادہ تر جرائم کی تحقیقات کے لیے ’موبائل ٹریکنگ‘ اور ’فرانزک سائنس‘ نے لے لی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
دسمبر 2020 کی ایک سرد صبح کے تین بجے ناروے پلٹ علی عمران اپنے بھائی عمر عمران کے ہمراہ اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے گجر خان اپنے گھر کی جانب گامزن تھے۔
یورپ پلٹ نوجوان خوش تھا کہ وہ دو سال بعد اپنے پیاروں سے ملے گا جو سخت سردی میں اس کے انتظار میں سوئے نہیں تھے۔
راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان جانے کے لیے ان کی گاڑی اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے نکلتی ہے اور اسی دوران ایک اور گاڑی، جس میں پولیس وردی میں ملبوس دو اشخاص موجود تھے، ان کا پیچھا شروع کرتی ہے۔
تقریبا چار بجے راولپنڈی کے گالف کلب کے نزدیک جی ٹی روڈ پر پولیس وردی میں موجود ایک شخص نے علی عمران کی گاڑی کو تلاشی کی غرض سے رکنے کا اشارہ کیا۔
گاڑی چلانے والا علی عمران کا بھائی پولیس کو دیکھ کر گاڑی ایک طرف لگا دیتا ہے، اور دوسری گاڑی میں موجود دونوں افراد نیچے اتر آتے ہیں۔
ان میں سے ایک شخص علی عمران اور عمر عمران پر پستول تان لیتا ہے جبکہ دوسرا گاڑی کی تلاشی شروع کرتا ہے اور علی عمران کے پرس سے پانچ ہزار یورو چھین لیتا ہے۔
پولیس نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج  کرکے تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔
کچھ دنوں بعد پولیس یکے بعد دیگرے تین ملزمان محمد جاوید، سکندر اور ابراہیم کو اس واردات کے شبے میں گرفتار کر لیتی ہے۔
دوران تفتیش معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں افراد ’ابراہیم گینگ‘ نامی ایک جرائم پیشہ گروہ کے مرکزی کارکنان ہیں اور یہ گروہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے پورے ملک میں سرگرم ہے۔ اور پورے ملک میں وطن پلٹ مسافروں کو ایئرپورٹ پر لوٹنے میں ملوث ہے۔

پولیس تفتیش کے مطابق وہ حالات کی مناسبت سے کبھی پولیس آفیسر، اے این ایف یا سی آئی اے کے ملازمین بن جاتے (فوٹو: اے ایف پی)

آخری مرتبہ اس گروہ کے اراکین سال 2000 میں گرفتار ہوئے تھے اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا ٗ پر رہائی کے بعد اگلے 21 سال تک دوبارہ وارداتوں میں ملوث رہے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق یہ گینگ ملائشیا، انڈونیشیا، دبئی، انگلینڈ، مسقط اور یورپ میں بھی ایسی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔
اس گینگ کے ممبران صبح سویرے ایئرپورٹ پر پہنچ جاتے اور تجربے کی روشنی میں بیرون ملک سے آئے مسافروں سے گھل مل جاتے اور پھر ان کا پیچھا کرتے۔
پولیس تفتیش کے مطابق وہ حالات کی مناسبت سے کبھی پولیس آفیسر، اے این ایف یا سی آئی اے کے ملازمین بن جاتے اور گاڑی میں موجود یونیفارم اور ریوالنگ لائیٹس استعمال کرتے۔ بسا اوقات یہ اسلحے کے استعمال سے بھی نہیں چوکتے۔
ابراہیم گینگ کے ممبران عربی، فارسی، پنجابی اور بہاری زبان پر عبور رکھتے اور لوگوں کو ہپناٹائیز کرنے کا فن بھی جانتے تھے۔
اس گروہ کی گرفتاری پر پولیس نے 17 اشیا برآمد کی جن میں اسلحہ کے علاوہ پولیس، سی آئی اے کی وردیاں، پولیس کی ٹوپیاں اور کارڈز، انٹرنیشنل پاسپورٹ، غیر ملکی پرمٹ ریزیڈنس کارڈز اور ماسک بھی شامل ہیں۔
خطرناک گینگ کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی؟
راولپنڈی کے تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او راجہ اعزاز نے اردو نیوز کو بتایا کہ 21 سال سے پولیس کو مطلوب یہ گینگ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔

پولیس کو دو موبائل نمبرز ایسے ملے جو مختلف علاقوں میں اسی طرز کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’عموماً صبح سویرے مسافروں کو لوٹنے والا یہ گینگ جیو فنسنگ، کال ڈیٹا رکارڈ اور موبائل لوکیٹرز کی مدد سے گرفتار ہوا۔‘
جیو فینسنگ کی مدد سے پولیس کو دو موبائل نمبرز ایسے ملے جو مختلف علاقوں میں اسی طرز کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے تھے۔
تفتیش کو آگے بڑھاتے ہوئے پولیس نے سی ڈی آر، یعنی کال ڈیٹا ریکارڈ کی مدد حاصل کی اور ان دو نمبروں سے مستقل رابطہ میں رہنے والے چند مزید نمبروں کا ریکارڈ حاصل کیا۔
ایس ایچ او راجہ اعزاز کہتے ہیں کہ ’سی ڈی آر کی مدد سے مستقل رابطے میں رہنے والے نمبروں کی پولیس نگرانی شروع کرتی ہے اور بعد میں موبائل لوکیٹرز کا استعمال کرتے ہوئے مطلوب شخص تک پہنچتی ہے۔‘
تھانہ کینٹ راولپنڈی کے سربراہ نے بتایا کہ موبائل لوکیٹرز کسی بھی جگہ سے استعمال ہوئے موبائل نمبر کا پتہ اس کھمبے کے ذریعے بتاتے ہیں جہاں سے سگنل استعمال ہوا ہو۔
پولیس حکام کا خیال ہے کہ انہیں اگر جدید ٹیکنالوجی کی مدد حاصل نہ ہوتی تو شاید یہ خطرناک گینگ اکیس سال بعد بھی گرفتار نہ ہو سکتا۔

اب زیادہ تر جرائم کی تحقیقات کے لیے ’موبائل ٹریکنگ‘ اور ’فرانزک سائنس‘ نے لے لی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آجا بالم تیرا انتظار ہے‘ سے چھٹکارا
اس کیس کی تفتیش میں استعمال ہونے والے چند طریقے ان جدید طریقوں میں سے ہیں جو اب پاکستان بھر میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کر رہے ہیں۔
تفتیش کے جدید طریقوں نے اب رفتہ رفتہ پاکستانی پولیس کے اس تاثر کو کسی حد تک کم کرنا شروع کردیا ہے جس میں تفتیش کا نام ذہن میں آتے ہی ’آ جا بالم تیرا انتظار ہے‘ والا اوزار آپ کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
اب زیادہ تر جرائم کی تحقیقات کے لیے ’موبائل ٹریکنگ‘ اور ’فرانزک سائنس‘ نے لے لی ہے تاہم اب بھی پاکستان کے کئی علاقوں میں سنگین جرائم کی تفتیش کرنے والوں کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
 تفتیش کے جدید طریقے کون سے ہیں؟
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب جہاں کی پولیس تفتیش میں پرتشدد طریقوں کے حوالے سے بدنام رہی ہے۔
محکمہ تفتیش کے سربراہ عبدالغفار قیصرانی کا کہنا ہے کہ پولیس اب بڑی حد تک ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے لیکن اب بھی ان کے پاس جدید آلات دستیاب نہیں ہیں۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور عبدالغفار قیصرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ’پنجاب میں پولیس کے کرائم یونٹ جرائم کی سراغ رسانی اور تفتیش کے لیے جیو فینسنگ، کال ریکارڈر اور موبائل لوکیٹرز کا استعمال اب تواتر سے کرتی ہے۔ ثبوتوں کی سائنسی جانچ کے لیے پنجاب میں فرانزک لیبارٹری موجود ہے جس میں ڈیٹا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ لیکن انویسٹی گیشن آلات کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ناصر محمود نے بتایا کہ پنجاب میں پولیس تفتیش کے لیے جھوٹ پکڑنے والی مشین بھی استعمال کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے بقول ’اب مارکیٹ میں تھری جی اور فور جی آلات بھی دستیاب ہیں جب کہ پولیس کو اب بھی ٹو جی موبائل لوکیٹرز استعمال کر رہی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں تعینات پولیس افسر اے ایس پی ناصرمحمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ جدید تفتیش اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے تمام صوبوں میں ایک تفریق ہے۔
ان کے بقول ٹیکنالوجی کے استعمال میں پنجاب سب سے آگے، دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا، پھر سندھ اور آخر میں بلوچستان کا نمبر ہے۔
ناصر محمود نے بتایا کہ پنجاب میں پولیس تفتیش کے لیے جھوٹ پکڑنے والی مشین بھی استعمال کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں اب بھی تفتیش کے روایتی طریقے استعمال ہوتے ہیں لیکن اب تھانوں میں تشدد کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے جس کی وجہ اب پولیس میں احتساب کا نظام اور تشدد کو معاشرے میں قبول نہ کرنا ہے۔
اب جرائم کی سراغ رسانی اور تفتیش کے لیے موبائل ٹریسنگ اور فرانزک اہم ہتھیار ہیں۔ فرانزک لیبارٹری میں انگلیوں کے نشانات کا ریکارڈ، تصاویر اور ویڈیوز کی مدد سے مجرم یا جرم تک پہنچا جاتا ہے۔
تاہم ان کے خیال میں پولیس اب بھی جدید ٹیکنالوجی کا مکمل استعمال نہیں کر رہی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے جرائم کی تفتیش کی صلاحیت پولیس کے پاس موجود نہیں ہے اور اس کے لیے وہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی محتاج ہے۔

ایس ایس پی طارق الہی کا کہنا تھا کہ پنجاب کی طرز پر سیف سٹی ماڈل کی بلوچستان میں بھی ضرورت ہے (فوٹو: اے ایف پی)

صوبہ بلوچستان میں تعینات ایس ایس پی لسبیلہ طارق الہی مستوئی نے بتایا کہ ’بلوچستان تفتیش اور سراغ رسانی کے جدید آلات کے حصول میں کچھ پیچھے رہ گیا ہے مگر پچھلے تین سالوں میں کافی تبدیلی آئی ہے۔‘
طارق الہی کے مطابق اس وقت بلوچستان میں پولیس کے کرائم اور ہنگامی یونٹ سراغ رسانی کے لیے جدید کیمروں، اور مختلف ڈیجیٹل آلات کا استعمال کر رہے ہیں جن میں ڈیجیٹل نقشہ جات کا بنانا، جیو فینسنگ اور موبائل لوکیٹرز کا استعمال اہم ہے۔
’کیونکہ بلوچستان میں عام جرائم کی نسبت دہشت گردی اور فرقہ وارانہ جرائم کی شرح زیادہ ہے تو پولیس کا انحصار بھی تفتیش کے لیے فرانزک ڈیٹا پر زیادہ ہے۔‘
ایس ایس پی لسبیلہ نے بتایا کہ فرانزک تفتیش کے لیے بلوچستان پولیس کا پنجاب فرانزک لیبارٹری کے ساتھ ایک معاہدہ ہے اور وہاں ہتھیاروں سے متعلق ایک بڑی تعداد میں ڈیٹا موجود ہے۔
ایس ایس پی طارق الہی سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی طرز پر سیف سٹی ماڈل کی بلوچستان میں بھی ضرورت ہے جس سے مجرموں کی پہچان اور ان تک رسائی آسان ہو سکتی۔

سمیع اللہ سومرو نے بتایا کہ اس وقت فرانزک لیبارٹری میں 50 ہزار سے زائد ہتھیاروں کے نمونے موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

صوبہ سندھ کے ایس ایس پی فرانزک سمیع اللہ سومرو نے اردو نیوز کو بتایا کہ سندھ پولیس سائنسی آلات میں ہتھیاروں کی فرانزک، کریمنل ریکارڈ، چہرے کی پہچان کے آلات، جعلی کاغذات اور دستخط پکڑنے کی مشین اور ڈی این اے ملانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
’اس وقت فرانزک لیبارٹری میں 50 ہزار سے زائد ہتھیاروں کے نمونے موجود ہیں جس سے جرائم میں استعمال ہونے والے اسلحے کی پہچان سے مجرموں تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔‘
ثبوت ہر ٹیکنالوجی کی بنیادی ضرورت
وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے ایس ایس پی آپریشنز سید مصطفیٰ تنویر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش ثبوتوں کی بنیاد پہ کی جاتی ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا ٹیکنالوجی پر منحصر ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیش میں موبائل ٹریسنگ کا اہم کردار ہے کیونکہ اس میں ڈیٹا موجود ہوتا ہے، مگر اب مجرم، جرم کرنے کے لیے موبائل استعمال کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
سید مصطفی تنویر نے مزید بتایا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال نے پولیس کی تفتیش اور سراغ رسانی کی صلاحیت کو بڑھا دیا ہے اور اسے مزید ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

شیئر: