Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ایف آئی آر کے اندراج کا نظام کہیں کچھ، کہیں کچھ

خیبر پختونخوا میں ایف آئی آر درج کرنے کا جدید نظام متعارف کروایا گیا (فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان میں حکومت سرکاری نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے آئے روز نت نئے اعلانات کرتی ہے لیکن بنیادی ضروریات میں سے ایک تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے کے لیے آج بھی دہائیوں پرانا طریقہ کار نافذ العمل ہے۔
 فرسٹ انفارمیشن رپورٹ یا ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) یوں تو ملک بھر میں پاکستان کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت درج کی جاتی ہے تاہم چاروں صوبوں اور وفاق میں ایف آئی آر درج کرنے کا یکساں نظام تاحال متعارف نہیں کروایا جاسکا۔
پاکستان میں صوبہ سندھ، پنجاب اور وفاق میں پولیس کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے بعد الیکٹرانک ایف آئی آر کا نظام تو متعارف کروایا جاچکا ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں ابھی تک مینول نظام کے تحت ہی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ایف آئی آر درج کرنے کا جدید نظام بھی متعارف کروایا گیا ہے جہاں شہریوں کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے آن لائن درخواست دینے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پکی ولیس کا ایف آئی آر درج کرنے کا نظام سندھ اور پنجاب کی طرح الیکٹرانک ایف آئی آر تک محدود ہے۔
 تھانہ کوہسار کے ہیڈ مہرر ناصر ممتاز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اسلام آباد کے تمام تھانوں میں الیکٹرانک ایف آئی آر کا نظام رائج ہے جس میں شکایت کنندہ کا تھانے میں درخواست دائر کرنا لازمی ہے۔‘
’تھانے میں درخواست دائر ہونے کے بعد ڈیوٹی افسر ابتدائی اطلاعی رپورٹ کو کمپیوٹر میں اور مینوئلی بھی درج کرتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو بھی درخواست آتی ہے، جرم قابل دست اندازی کی صورت میں اسی وقت ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے جس کا ریکارڈ مینیول اور کمپیوٹر میں بھی رکھا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے میں عمومی طور پر تاخیر نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات مدعی کی درخواست پر انکوائری کرنا ضروری ہوتی ہے۔

وفاق کی طرح پنجاب اور سندھ میں بھی الیکٹرانک ایف آئی آر کا نظام رائج ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’اگر کوئی مدعی اپنے اوپر فائرنگ کرنے کا کسی پر الزام لگاتا ہے تو اس کا تعین وہاں پر موجود ڈیوٹی افسر کرتا ہے کہ آیا مدعی کی بات درست بھی ہے یا نہیں۔‘
وفاق کی طرح پنجاب اور سندھ میں بھی الیکٹرانک ایف آئی آر کا نظام رائج ہے جس میں درج کی گئی ایف آئی آر کو آن لائن پورٹل کے ذریعے چیک بھی کیا جاسکتا ہے تاہم شہری آن لائن طریقے سے آیف آئی آر درج کرنے کی درخواست دائر کرنے کی سہولت سے محروم ہیں۔
سندھ پولیس کے ترجمان شکیل جوکھیو نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سندھ میں الیکٹرانک ایف آئی آر کا نظام رائج ہے تاہم آن لائن ایف آئی آر کا نظام صوبے میں متعارف نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کراچی کے چند تھانوں میں دو سال قبل آن لائن ایف آئی آر درج کرنے کے نظام کو پائلٹ منصوبے کے تحت متعارف کروایا گیا تھا لیکن تکنیکی خامیوں کے باعث اس نظام کو صوبے میں فروغ نہیں دیا گیا۔‘
بلوچستان میں باقی صوبوں کے برعکس اب تک سارا نظام ہاتھ کی لکھائی اور کاغذوں پر چل رہا ہے۔ سینیئر قانون دان اور بلوچستان بار کونسل کے چیئرمین راحب بلیدی نے اردو نیوز کوئٹہ کے نامہ نگار زین الدین احمد کو بتایا کہ ’بلوچستان میں ابھی تک روایتی انداز میں مقدمات کا اندراج ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دیوانی مقدمات کا آغاز تحریری طور پر دعویٰ دائر کرنے سے ہوتا ہے جبکہ فوجداری مقدمات کی ابتدا متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج سے ہوتی ہے۔ ایف آئی آر کے بعد ہی مروجہ قوانین کا عمل آتا ہے۔‘

بلوچستان میں ابھی تک آن لائن ایف آئی آر یا کمپیوٹرائزڈ اندراج کا تصور موجود نہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ایف آئی آر کے اندراج کے لیے ضروری ہے کہ جرم قابل دست اندازی ہو۔ اس کی اطلاع متاثرہ شخص یا کوئی بھی عام شہری جسے جرم سرزد ہونے کا علم ہو دے سکتا ہے ۔ پولیس خود بھی مقدمہ درج کرسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایف آئی آر کے اندراج کے لیے تھانے میں پیش ہونا ضروری نہیں۔ انٹرنیٹ، فون یا کسی اور ذریعے سے بھی پولیس کو اطلاع دی جاسکتی ہے مگر عملی طور پر پولیس ایسا نہیں کرتی۔‘
بلوچستان میں ابھی تک آن لائن ایف آئی آر یا کمپیوٹرائزڈ اندراج کا تصور موجود نہیں۔ یہاں مخصوص رجسٹر میں مقدمہ درج کرنے تک پولیس حرکت میں نہیں آتی۔
راحب بلیدی کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں پولیس کے نظام میں بدعنوانیاں اور پیچیدگیاں موجود ہیں۔ پولیس اہلکار متاثرہ شخص سے رشوت لیے بغیر مقدمہ درج نہیں کرتی۔ لیویز بھی انگریز دور کے روایتی انداز سے کام کرتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کمپیوٹرائزڈ نظام نہ ہونے کی وجہ سے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی جاتی ہے۔ عدالتوں میں اکثر مجرم ایف آئی آر کی تاخیر سے اندراج کے باعث شک کا فائدہ اٹھا کر بری ہوجاتے ہیں۔‘
کوئٹہ پولیس کے شعبہ قانون کے ڈی ایس پی حمید دستی کے مطابق ’ہمارے ہاں ابھی تک آن لائن شکایات کے اندراج کا رجحان نہیں آیا کیونکہ لوگوں کی اکثریت ناخواندہ ہے یا پھر انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتی۔‘

کوئٹہ پولیس کے مطابق ’ہمارے ہاں ابھی تک آن لائن شکایات کے اندراج کا رجحان نہیں آیا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ باقی صوبوں کی طرح یہاں ابھی تک پولیس کا نظام اور ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوا۔ دو سال قبل کوئٹہ سے ایف آئی آر کے اندراج سمیت پولیس کے تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں کوئٹہ کے تمام تھانوں میں آئی ٹی سیکشن بناکر آپریٹرز بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ اس وقت ایف آئی آر پہلے ہاتھ سے لکھی جاتی ہے اس کے بعد اس کا کمپیوٹر پر اندراج کیا جاتا ہے۔
ڈی ایس پی لیگل کے مطابق ’اگلے مرحلے میں ہمارا ہدف ہے کہ شکایات اور مقدمات کے اندراج سمیت پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس نظام میں بہتری لانے کے لیے آن لائن ایف آئی آر سسٹم کو 2013 میں متعارف کرایا گیا۔ اس نظام کے تحت شہری گھروں میں بیٹھ کر کسی بھی مسئلے کے بارے میں انٹرنیٹ کے ذریعے ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست جمع کرواسکتے ہیں۔
پشاور پولیس کے ترجمان نوید گل نے بتایا کہ ’انٹرنیٹ کے ذریعے سے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے سب سے پہلے کنٹرول روم میں تحریری شکایت موصول ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ شکایت متعلقہ تھانے کو بھیجی جاتی ہے جہاں ابتدائی تفتیش کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ شکایت کو ایف آئی آر میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔‘

شیئر: