Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طیارہ ہائی جیکنگ: جنرل ضیا کی سازش یا الذوالفقار کا انتقام؟

ہائی جیکنگ کے بعد عالمی میڈیا میں مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو کے نام کی گونج سنائی دینے لگی (فوٹو: فیس بک وینٹج پاکستان)
دو مارچ 1981 کی دوپہر دو بج کر پندرہ منٹ پر پی آئی اے کا طیارہ پی کے 326 کراچی سے پشاور کے لیے اڑان بھرتا ہے۔ جہاز میں عملے کے پانچ افراد سمیت 48 ملکی و غیر ملکی مسافر سوار ہیں۔ میانوالی کے اوپر پرواز کے دوران تین نوجوان اپنی سیٹوں سے اٹھتے ہیں، اسلحہ کے زور پر پائلٹ کو جہاز کا رخ موڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
شام پانچ بجے جہاز کابل کے ہوائی اڈے پر اتار لیا جاتا ہے۔
اس پاکستانی طیارے کی ہائی جیکنگ کی خبر اگلے دن عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں سے نمایاں تھی۔ اغواکاروں کی شناخت ’الذوالفقار‘ اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تین نوجوانوں کے طور پر کرائی گئی۔ 
سلام اللہ  ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد شیرازی نے مسافروں کی رہائی کے بدلے ملک کی مختلف جیلوں میں قید پیپلزپارٹی کے 54 سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آنے والے تین روز تک حکومت پاکستان کے نمائندوں اور ہائی جیکرز میں بےسود مذاکرات ہوتے رہے۔
طیارے کے مسافروں میں کیپٹن طارق رحیم بھی شامل تھے۔ اغوا کنندگان نے انہیں جنرل رحیم الدین کا بیٹا ہونے کے شبہے میں قتل کر دیا تھا۔
اس کے بعد کسی ممکنہ ایکشن کے خدشے کے پیش نظر سات مارچ کی صبح جہاز نےمسافروں سمیت شام کے دارالحکومت دمشق کا رخ کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھانسی کے بعد احتجاج اور مظاہروں کی پاداش میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد مختلف جیلوں میں قید تھی۔ ان میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام  حسین، سابق سپیکر معراج خالد، سابق وزیر سید اقبال حیدر، میاں محمود علی قصوری اور سلمان تاثیر شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم سٹار محمد علی اور حبیب بھی سیاسی قید کاٹ رہے تھے۔
اس ہائی جیکنگ کے بعد عالمی میڈیا میں ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو کے نام کی گونج پھر سنائی دینے لگی۔

رہائی پانے والے رہنما اور کارکن 25 دن تک دمشق کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں مقیم رہے (فوٹو: ہسٹری آف پی آئی اے)

 پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت نے ہائی جیکرز اور اس نئی تنظیم سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔
بالآخر 12 مارچ کو حکومت نے جہاز کے مسافروں کے بدلے 54 قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ایک خصوصی طیارے کے ذریعے 15 مارچ کو شام بھیج دیا گیا۔
رہائی پانے والوں میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر غلام حسین نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس وقت کے حالات اور اپنی رہائی کی تفصیل بتاتے ہوتے ہوئے کہا کہ سیاسی قیدیوں کو زبردستی شام بھیجا گیا تھا۔
’ہم لوگ ہائی جیکنگ کے نتیجے میں رہا ہونے کو تیار نہیں تھے۔ ہمیں زبردستی ہتھکڑیاں لگا کر طیارے میں سوار کر دیا گیا۔ میں نے زبردستی کرنے والے ایک اہلکار کے سر پر ہتھکڑی بھی دے ماری تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ طیارے کے مسافروں میں امریکی باشندے بھی شامل تھے، اس لیے پاکستانی حکومت نے دباؤ میں آ کر ہمیں شام بھجوا دیا۔
سابق طالب علم رہنما آصف بٹ کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہو کر دمشق جانے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’کہیں سولیاں سر راہ تھیں‘ میں طیارے کے اغوا، شام اور کابل کے حالات اور پاکستانی جیلوں میں اپنی  قید کی داستان بیان کی ہے۔
رہائی پانے والے رہنما اور کارکن 25 دن تک دمشق کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں مقیم رہے، جہاں مستقبل کے لائحہ عمل اور جدوجہد کے طریقہ پر اختلافات نے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

فاطمہ بھٹو کے خیال میں میر مرتضیٰ بھٹو کے طیارے کا ہائی جیکنگ کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا (فوٹو: فیس بک وینٹج پاکستان)

الذوالفقار کے ساتھ مل کر ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف عسکری جدوجہد کے لیے رضامند 28 لوگوں نے کابل کا رخ کیا۔ باقیوں نے سیاسی  پناہ کے لیے یورپ کا انتخاب کیا۔
ڈاکٹر غلام حسین کے مطابق انہیں اور دیگر 12 افراد کو اقوام متحدہ کی چھان بین اور ہدایت کے بعد پاسپورٹ جاری کیا گیا، جس کے بعد وہ سویڈن منتقل ہوگئے۔ سویڈن میں انہوں نے 1988 تک کا عرصہ سیاسی اور جمہوری جدوجہد میں گزارا۔
کابل جانے والوں میں آصف بٹ، ارشد اعوان، اعظم چودھری، لالہ اسد پٹھان، پرویز شنواری اور طارق چیمہ  بھی شامل تھے۔ آصف بٹ کے مطابق انھیں شامی پاسپورٹ پر براستہ ہندوستان کابل لے جایا گیا۔
 ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی دیے جانے سے قبل کہا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو میرے بیٹے میرا انتقام لیں گے۔ بے نظیر بھٹو کے نزدیک اس کی تشریح تھی کہ بیٹوں سے مراد پیپلزپارٹی کے کارکن تھے نہ کہ ان کے حقیقی بیٹے۔ انتقام سے مراد ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ اس کے برعکس مرتضیٰ اور شاہنواز اسے باپ کی طرف سے قاتلوں سے انتقام کا اشارہ قرار دیتے تھے۔ 
آصف بٹ کی کتاب کے مطابق ضیاء الحق کے طیارے پر ’سام سکس میزائل‘ سے حملے کا ٹاسک آصف بٹ، ارشد اعوان اور اعظم چوہدری کو دیا گیا۔ جسٹس مشتاق  کو نشانہ بنانے کے لیے لالہ اسد پٹھان کا انتخاب ہوا۔ آصف بٹ، طارق چیمہ اور اسد پٹھان خفیہ  طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے۔
طارق چیمہ نے چوہدری ظہور الٰہی کے ذریعے سرنڈر کر کے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔
آصف بٹ کے مطابق انہوں نے ضیاء الحق کے طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے ایک مکان بھی کرائے پر لے لیا تھا، مگر بعد میں ان کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری سے یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔

میر مرتضیٰ بھٹو 1996 میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے شاہی قلعہ لاہور میں دوران گرفتاری اپنے تمام منصوبوں کا انکشاف کیا تو پہلے انہیں سزائے موت سنائی گئی جو کہ بعد میں عمر قید میں بدل گئی۔
40 برس قبل پیش آنے والے اس واقعے کے کرداروں اور مقاصد کے بارے میں مختلف اور متضاد رائے پائی جاتی رہی ہے۔
ڈاکٹر غلام حسین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’طیارہ ہائی جیکنگ اصل میں ضیاء الحق حکومت کی سازش تھی، یہ کام سلام اللہ ٹیپو سے لیا گیا۔ اس وقت کی حکومت طیارہ تباہ کر کے پیپلز پارٹی کو بد نام کرنا چاہتی تھی، مگر امریکی باشندوں کی وجہ سے ایسا نہ کرسکی۔‘
میر مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو اپنی کتاب Songs of Blood and Sword میں لکھتی ہیں کہ اس سارے معاملے سے ان کے والد کا کوئی تعلق نہ تھا، یہ ہائی جیکنگ ضیاء الحق نے خود کروائی تھی تاکہ پیپلز پارٹی کو بد نام کیا جا سکے۔
فاطمہ بھٹو کے مطابق ہائی جیکرز خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ تھے، اس واقعے سے نقصان پیپلزپارٹی کا ہوا اور ضیاء الحق  کی حکومت مزید مضبوط ہوئی جبکہ سارے معاشرے پر منفی اثرات پڑے۔
فاطمہ بھٹو کی معلومات کا ذریعہ ان کے والد کے دوست سہیل سیٹھی ہیں جنہوں نے انہیں بتایا کہ مرتضیٰ بھٹو کابل جا کر مسافروں کو ہائی جیکر سے چھڑانا چاہتے تھے۔
دوسری جانب آصف بٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’جیلوں سے رہا ہو کر جب ہم دمشق پہنچے تو میر مرتضیٰ بھٹو اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں نظر آ رہے تھے۔‘

پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر غلام حسین کے مطابق طیارہ ہائی جیکنگ ضیاء الحق حکومت کی سازش تھی۔ فوٹو وائٹ سٹار

 ایئر مارشل اصغر خان اپنی  کتاب میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہائی جیکنگ کا واقعہ اس وقت ہوا جب ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کا آغاز ہوا تھا۔ حکومت نے اس کا فائدہ اٹھا کر پیپلز پارٹی کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ پاکستان کے زیرِ کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم خان اس واقعے کو جواز بنا کر ایم آر ڈی سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
اس واقعے سے جڑے بعض کرداروں کا خاتمہ بہت دردناک طریقے سے ہوا۔
طیارے کے ہائی جیکرز میں سے ایک سلام اللہ ٹیپو کو افغان حکومت نے  فائرنگ سکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پرویز شنواری آپس کی لڑائی میں ہلاک ہوئے۔ لالا اسد پٹھان کراچی پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ عبدالرزاق جھرنا، عثمان غنی، ادریس بیگ اور ادریس طوطی مختلف الزامات میں پھانسی پر چڑھا دیے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر اور مسلم لیگ ن کے موجودہ رہنما راجہ انور کو خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ ہونے اور ان کے قتل کی سازش  کے شبہے میں افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے پل چرخی جیل کے اذیت ناک واقعات کا ذکر اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے پر ڈاکٹر غلام حسین وطن لوٹ آئے جبکہ آصف بٹ کو بھی جیل سے رہائی مل گئی۔ میر مرتضیٰ بھٹو 1996 میں مبینہ پولیس مقابلے میں زندگی کی بازی ہار گئے، بقیہ دو کردار ناصر جمال اور ارشد شیرازی ابھی تک جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

شیئر: