Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں عرب، بلوچ، کُرد اور آزری اقوام بدحالی کا شکار

ملک کے بنیادی طور پر سنی بلوچ رہائشی اور اہل تشیع آبادی کے تعلقات طویل عرصے سے کشیدہ ہیں۔فائل فوٹو: اے ایف پی
ایران میں غیر فارسی افراد ملک کی کل آبادی کا 50 فیصد ہیں، لیکن پھر بھی وہ کافی حد تک پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق حالیہ برسوں میں ایران کی حکومت اور مغرب میں اس کے حامیوں نے اس بیانیے کی حمایت کی ہے جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ امریکہ ظالم ہے اور ’ایرانی شہری‘ یا ایران کی فارسی بولنے والے اور اہلِ تشیع آبادی ان مظالم کا شکار ہیں۔  
تاہم یہ بیانیہ ہر اس بار حملے کا شکار ہوتا ہے جس سے ایران کی ظلم سہنے والی اقلیت قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال وہ پرتشدد جھڑپیں ہیں جنہوں نے حال ہی میں ملک کے غربت زدہ جنوب مشرقی علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیانیے میں کہا ہے کہ ’حکام نے سیستان اور بلوچستان کے صوبوں میں موبائل ڈیٹا یا انٹرنیٹ بند کردیا ہے۔‘
ان تنظیموں نے کہا ہے کہ ’انٹرنیٹ بند کرنے سے حکام چاہتے ہیں کہ مظاہروں پر سخت ردِعمل کو چھپایا جا سکے۔‘
پاکستان سے ایران میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد پر فائرنگ کے بعد مقامی افراد نے اشتعال میں آکر ساراوان شہر میں دو پولیس سٹیشنز اور ضلعی گورنر کے دفتر پر پر حملہ کیا۔
ایران کے صوبے سیستان اور بلوچستان میں نچلی سطح کی شورش میں کچھ تشدت پسند تنظیمیں ملوث ہیں، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو خطے کے لیے مزید خودمختاری کا مطابہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ملک کے بنیادی طور پر سنی بلوچ رہائشی اور اہل تشیع آبادی کے تعلقات طویل عرصے سے کشیدہ ہیں۔
1979 کے اسلامی انقلاب سے لے کر اب تک عرب اور بلوچ افراد کو ایرانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔

ایران میں حکومت مخالف سوشل میڈیا پیج چلانے جیسے چھوٹے عمل پر بھی پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس کے نتیجے میں 40 برسوں سے زائد کے عرصے کے بعد بھی خزیستان، کردستان اور سیستان اور بلوچستان جیسے صوبے ایران کے سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں میں سے ہیں۔
حکام نے پھانسی دینے، نظربندیوں اور احتجاج کرنے والی اقلیتیوں پر گولہ بارود کے استعمال کرنے کو 'دہشتگردی' اور 'شدت پسندی' سے لڑنے کا نام دیا ہے۔
ایران میں حکومت مخالف سوشل میڈیا پیج چلانے جیسے چھوٹے عمل پر بھی پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔
لندن میں قائم سینٹر فار بلوچ سٹڈیز کے ڈائریکٹر عبدالستار دوشوکی نے اقلیت کے مسائل پر کام کرنے والی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل فورم آن مائنارٹی ایشوز کو جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ایران کا آئین امتیازی سلوک کو جائز قرار دیتا ہے۔‘

شیئر: