Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ کاروباری افراد کے لیے ’پسندیدہ جگہ‘ کیوں ہے؟

سینیٹ انتخابات میں پہلا تنازع جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے سے شروع ہوتا ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں عام انتخابات کے دنوں میں سیاسی تنازعات کا سامنے آنا معمول کی بات ہے لیکن اس بار سینیٹ انتخابات میں بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے جب ایک نشست ہارنے پر وزیراعظم عمران خان کو عوام سے براہ راست خطاب کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
سینیٹ انتخابات میں پہلا تنازع ایوان میں موجود جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے سے شروع ہوتا ہے اور بعض اوقات انہیں امیدوار کا نام واپس لینا پڑتا ہے۔
ایسے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آخر سینیٹر کے پاس ایسا بھی کیا اثر و رسوخ  ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے صنعت کار، کاروباری حضرات اور سرمایہ کار سینیٹر بننا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے ایسے امیدوار کا دفاع کرتی ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے پوری کوشش کرتی ہیں۔
پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے عام انتخابات اور سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار میں فرق ہے۔ عام انتخابات میں جہاں پارٹی کا ٹکٹ کام آتا ہے، وہیں حلقے میں عوامی سطح پر سیاسی جان پہچان اور اثر و رسوخ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح انتخابی مہم چلانے کے لیے بھی کافی بڑی رقم درکار ہوتی ہے۔
سینیٹ میں حلقہ انتخاب چونکہ صوبائی اور قومی اسمبلی ہوتی ہے جہاں ووٹرز کی تعداد محدود اور عموماً پارٹی ڈسپلن کی پابند ہوتی ہے۔ یہاں ووٹ سے زیادہ ایوان میں اکثریتی جماعت کا ٹکٹ اہم ہوتا ہے۔
اگر تو امیدوار پارٹی کارکن ہو تو اس کو ٹکٹ بھی تقریباً مفت ہی مل جاتا ہے اور ارکان ووٹ بھی دے دیتے ہیں جبکہ کئی سرمایہ دار، صنعت کار اور تاجر بھی حکومتی جماعت کے ٹکٹ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔

ایک سینیٹر کی تنخواہ و مراعات تو اتنی ہیں کہ اسلام آباد میں ایک مختصر فیملی کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سینیٹ قواعد کا جائزہ لیا جائے تو ایک سینیٹر کی تنخواہ و مراعات تو اتنی ہیں کہ اسلام آباد میں ایک مختصر فیملی کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے۔
آئین و قانون کے مطابق ایک سینیٹر کے پاس کوئی انفرادی اختیار نہیں ہے بلکہ سینیٹ کا رکن ہونے کی حیثیت سے وہ سینیٹ کا اختیار استعمال کرتے ہوئے قانون بنانے کے لیے بل تجویز کر سکتے ہیں اور قانون سازی میں حصہ لے سکتے ہیں۔
وہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ حکومت سے سوال کرنے، کسی بھی عوامی اہمیت کے مسئلے پر تحریک التوا یا قرارداد پیش کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کچھ اختیارات اور مراعات کا استحقاق رکھتے ہیں جن میں سب سے بڑا اختیار یہ ہے کہ ’کسی بھی سرکاری افسر کی جانب سے کمیٹی میں پیش نہ ہونے کی صورت میں اس کے سمن بھی جاری کیے جا سکتے ہیں۔
‘یہ وہ اختیارات ہیں جو رسمی طور پر قانون کی کتابوں میں درج ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ معاشرتی سٹیٹس، غیر رسمی اثر و رسوخ اور رعب دبدبہ ہوتا ہے جس کا استعمال بھی معمول ہے، لیکن اس میں سے کچھ استحقاق ہوتا ہے جبکہ کچھ عہدے کا بے جا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ملک کے کسی بھی ایئرپورٹ پر وی آئی پی لاؤنج کا استعمال سینیٹر کا استحقاق ہے لیکن اپنے علاقے کے تھانوں میں اثر و رسوخ کا استعمال کسی بھی عوامی نمائندے کا استحقاق نہیں لیکن چلتا ضرور ہے۔
حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی ماضی کی طرح پارٹی ٹکٹیں فروخت کرنے اور صوبائی و قومی اسمبلی میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے الزامات سامنے آئے ہیں۔
اس حوالے سے تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’سینیٹر کے پاس دو طرح کے اثر و رسوخ ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جن کی کوئی سیاسی حیثیت ہوتی ہے، سیاسی قد کاٹھ ہوتا ہے اور پارٹی کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں بن سکتے تو پارٹی ان کو سینیٹر بنا دیتی ہے۔ سینیٹر بننے سے ان کی بات میں وزن اور پارٹی بیانیہ کو تقویت دینے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

ملک کے کسی بھی ایئرپورٹ پر وی آئی پی لاؤنج کا استعمال سینیٹر کا استحقاق ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’یہ لوگ پارٹیوں کی مجبوری ہوتے ہیں جیسے راجہ ظفر الحق، رضا ربانی، مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید جیسے لوگ، جو حقیقت میں سیاسی کارکن اور پارٹی کی آواز اور ضرورت ہوتے ہیں۔
رسول بخش رئیس کے بقول ’دوسرے وہ لوگ ہیں جو سینیٹر بن کر اس عہدے کا اثر و رسوخ ذاتی مفادات کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سیاست سے نہیں صرف سینیٹ سے دلچسپی ہوتی ہے۔
تاہم ایگزیکٹو ڈائریکٹر پلڈاٹ آسیہ ریاض اس موقف سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک کسی بھی قانونی فورم پر کسی سینیٹر کی جانب سے پیسے دے کر ووٹ اور ٹکٹ خریدنے کے حوالے سے، پوری سینیٹ میں ایسے لوگوں کے تناسب کے حوالے سے اور ان کے بے جا اثر و رسوخ کے حوالے سے کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ یہ سب باتیں ہیں اور باتوں کی حد تک ہی ہیں۔ اس لیے اس بات پر تبصرہ بھی نہیں کرنا چاہیے جو کسی فورم سے ثابت شدہ نہ ہو۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے ایک سابق سینیٹر سے رابطہ کیا۔ تو انھوں نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ’جب ایک کاروباری فرد سینیٹر بنتا ہے تو معاشرے میں اس کا اثر و رسوخ بڑھتا ہے۔ اس کو ذاتی اور کاروباری لحاظ سے کئی ایک فوائد ملتے ہیں۔ براہ راست تعلقات بنتے ہیں۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی بیورو کریسی اور انتطامی مشینری سے روابط میں آسانی ہوتی ہے۔
’جب بندہ سسٹم کا حصہ بن جاتا ہے اس کے کاروبار کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو فکس کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ راجہ ظفر الحق، رضا ربانی، مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید جیسے لوگ پارٹی کی آواز اور ضرورت ہوتے ہیں۔‘ (فوٹو: رضا ربانی ڈاٹ کام)

انھوں نے بتایا کہ ’پیسہ خرچ کر کے سینیٹر بننے کے پیچھے ضروری نہیں کہ صرف پیسہ ہی کمانا ہو بلکہ کچھ کے پاس پہلے ہی بہت پیسہ ہوتا ہے لیکن ان کا نام نہیں ہوتا۔ وہ صرف نام کمانے کے لیے سینیٹر بنتے ہیں اور اس کے لیے پیسہ لگانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔
ان کے مطابق ’کچھ لوگ واقعی خدمت کے جذبے سے بھی آتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پیسہ خرچ کر کے سسٹم کی بہتری اور عوامی فلاح و بہبود میں کردار ادا کر سکیں۔
جبکہ 12سال تک مسلسل سینیٹر رہنے والے طاہر مشہدی جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے، وہ اس حوالے سے مختلف نکتہ نگاہ رکھتے ہیں۔
انھوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو لوگ پیسے دے کر سینیٹر بنتے ہیں ان کے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس سے’سٹیٹس‘ حاصل ہوتا ہے۔ قواعد کے مطابق ایک سینیٹر کو گریڈ 22 سے اوپر کا سٹیٹس ملتا ہے جو کہ ایک جنرل سے بھی اوپر ہوتا ہے۔ دوسرا مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنی دولت اور کاروبار کا تحفظ چاہتے ہیں۔
سینیٹر طاہر مشہدی نے مزید کہا کہ ’اگر ایوان میں 100 لوگ ہیں تو 80 لوگ پارٹی ٹکٹ اور پارٹی کے وفادار رہتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جس کے لیے انھیں ایوان میں لایا گیا تھا۔ باقی 15، 20 لوگ جو پیسے دے کر سینیٹر بنتے ہیں، وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے فوائد حاصل کرتے ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: