Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اویغور مسلمانوں کا امریکہ سے سنکیانگ میں حراستی کیمپ بند کروانے کا مطالبہ

چین نے امریکہ کے نسل کشی سے متعلق الزامات ہمیشہ مسترد کیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
چین کی اویغور مسلمان برادری نے امریکہ سے صوبہ سنکیانگ میں قائم حراستی کیمپ بند کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق اویغور مسلمان برادری نے جمعرات کو امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو لکھے گئے خط میں درخواست کی ہے کہ چین سے حراستی کیمپ بند کروانے کا مطالبہ کیا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر اویغور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے گروپ ’ورلڈ اویغور کانگریس‘ کے صدر دولکن عیسیٰ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ چین غیر مشروط بنیادوں پر مشرقی ترکستان میں انسانیت کے خلاف جاری نسل کشی فوراً بند کرے۔
اقوام متحدہ اور سماجی کارکنان کے اعداد و شمار کے مطابق کہ چین نے دس لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر ترک مسلمانوں کو ان کی مرضی کے بغیر ان حراستی کیمپوں میں قید کیا ہوا ہے۔ 
خط میں تمام حراستی کیمپوں کو بند کرنے اور قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ورلڈ اویغور کانگریس کے صدر دولکن عیسیٰ نے مزید کہا کہ امریکہ سنکیانگ میں جاری جبری مشقت بھی بند کروانے کا مطالبہ کرے اور اقوام متحدہ کو صوبہ سنکیانگ میں تحقیقات کرنے کی اجازت دی جائے۔
چین نے نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کے امریکی الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کیمپوں میں اسلامی انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف تربیت دی جاتی ہے۔ 

اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد اویغور مسلمان حراستی کیمپوں میں قید ہیں۔ (فوٹو اے ایف پی)

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان کی الاسکا میں چینی اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات متوقع ہے جو صدر جو بائیڈن کے صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان پہلی ملاقات ہوگی۔
امریکی سیکریٹری خارجہ پہلے ہی چین کی خطے میں جارحانہ پالیسیوں کی مخالفت کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ میں چینی مندوب نے انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا کہ سنکیانگ اور تبت کے علاقے خوشحال اور مستحکم ہیں، چین پر نسل کشی کا الزام عائد کرنا مضحکہ خیز ہے۔
جبکہ یورپی یونین کے رکن ممالک نے اصولی مؤقف اپناتے ہوئے چینی حکام کو بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

شیئر: