Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: لاہور موٹر وے کیس، چند سبق  

ملزمان عابد ملہی اور شفقت بگا کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ فوٹو پنجاب پولیس
لاہور موٹر وے کیس کے ملزموں کو عدالت سے سزا ہو گئی۔ امید ہے کہ یہ سزا اعلیٰ عدالتوں سے بھی کنفرم ہو گی۔ مگر یہ کیس اور اس کے بعد کے واقعات کئی سوال چھوڑ گئے ہیں۔ ان سوالات میں کئی سبق بھی پنہاں ہیں جن کا ادراک مستقبل میں معاشرے کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج پنجاب بلکہ پاکستان کی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں خواتین، لڑکیاں اور بچیاں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں؟
یقیناً اس تحفظ کا احساس ایک دو مہینوں میں اجاگر نہیں ہو سکتا مگر کیا اس  کی طرف خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں؟ اگر کسی ورکنگ وومین یا طالبہ سے پوچھا جائے تو ان کا جواب بدستور نفی میں ہی ہو گا۔ ریپ کی خبریں ابھی بھی معمول ہیں اور جنسی ہراسگی کے واقعات کا تو شمار ہی نہیں۔   
موٹر وے واقعہ بروقت رسپانس نہ ہونے کی ایک تلخ مثال بنا۔
کیا آج پولیس اس بات کی گارنٹی دے سکتی ہے کہ ملک کے طول وعرض میں کسی ہنگامی کال پر وہ فوری طور پر پہنچ سکتی ہیں۔ اب بھی موٹر ویز پر ایمرجنسی نمبر اور لوکل پولیس کا ایمرجنسی نمبر علیحدہ ہیں۔ پھر 1122 اور کئی دیگر ہیلپ لائنز اس کے علاوہ ہیں۔
آخر دیگر ممالک کی طرح ہمارے ہاں ایک ایمرجنسی نمبر کیوں لاگو نہیں ہو سکتا جس پر شہری کال کریں اور پھر ان کو متعلقہ ادارے کی طرف ڈائریکٹ کر دیا جائے۔
اگر یہ واقعہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیش آیا ہوتا تو ابھی تک قانون نافذ کرنے والے تمام وفاقی اور صوبائی ادارے سر جوڑ کر بیٹھے ہوتے اور ایک مربوط نظام تشکیل پا چکا ہوتا۔ 
اس واقعے نے عوام پر پولیس کے رویوں اور تعصبات کو آشکار کیا بلکہ کہنا چاہیے کہ مزید عیاں کیا۔ عام سپاہی اور تھانیدار تو بدنام تھے ہی، اعلیٰ افسران کے خواتین کے بارے میں فرموادت تمام قوم نے سنے۔

ٹرائل کے دوران متاثرہ خاتون کی شناخت کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

کیا آج تھانوں اور ناکوں پر پولیس کا رویہ بدلنے کی طرف کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے؟ پنجاب پولیس خصوصاً اپنے جارحانہ اور اکھڑ رویوں کی وجہ سے مشہور یا بدنام ہے۔ پولیس اصلاحات نے اس بدنام زمانہ تھانہ کلچر کو بدلنا تھا۔ آئے دن اس کے بارے میں حکومتی زعما کے لیکچر سننے کو ملتے ہیں مگر گراؤنڈ پر کچھ خاص نظر نہیں آ رہا۔
تفتیش ہمارے نظام کا سب سے کمزور پہلو ہے۔ اسی کیس میں ہفتوں تک ملزم گرفتار نہیں ہو سکا اور گرفتار بھی اس وقت ہوا جب اس کے سارے گھر والے خواتین سمیت اٹھا لیے گئے۔ یہی ملزمان پہلے بھی سنگین وارداتیں کر کے آزاد پھر رہے تھے۔ اگر موثر ڈیٹا اور نگرانی کا نظام ہوتا تو ان کے اوپر چیک ہوتا اور وارداتیں کرتے ان کو خوف ہوتا۔ 
اس کیس میں متاثرہ خاتون کی شناخت کو خفیہ رکھنا ایک ضروری پہلو تھا جس کو بہر حال میڈیا اور پولیس دونوں نے یقینی بنایا۔ دوران ٹرائل بھی شہادت بذریعہ ٹیکنالوجی ریکارڈ کی گئی۔ اس پریکٹس کو باقی جگہ بھی لاگو کرنا چاہیے۔
اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا اس قدم کو اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اپیل کے دوران قبول کیا جاتا ہے؟ ایسا ہونا آئندہ کے لیے لازمی ہے۔ تفتیش کے سقم عام طور پر اپیل میں ہی سامنے آتے ہیں۔ اس سے پیشترمختاراں مائی سے لے کر ڈینیئل پرل تک کئی اہم کیس اپیلوں میں کمزور تفتیشش پر بری ہوئے۔ امید ہی اس کیس اور اس کے بعد کی کیوز میں ایسا نہیں ہو گا۔  

’موٹر وے واقعہ بر وقت رسپانس نہ ہونے کی ایک تلخ مثال بنا‘ ۔ فوٹو اے ایف پی

حکومت اور قوم، ہر ایک واقعہ جس میں کسی خاتون کے ساتھ زیادتی اور تشدد ہو، کے ذمہ دار ہیں۔ مگر عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ جو واقعات میڈیا پر آ جائیں ان پر فوری ایکشن ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر معمول کی کارروائیاں۔
مثالی نظام انصاف وہ ہے جو بر وقت خود مظلوم تک پہنچے اور اس کی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ کیا ہمارا نظام ایسا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ 

شیئر: