Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!

امریکہ کے بعد دنیا بھر میں انڈیا کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انسان چاہے کتنا بھی سمجھدار کیوں نہ ہو، کچھ باتیں پھر بھی سمجھ سے باہر ہی رہتی ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ سمجھداری کا کوئی یکساں پیمانہ تو ہوتا نہیں ہے، ہم سب ہی خود کو دوسروں سے سمجھدار سمجھتے ہیں تو پھر اس بے کار کی بحث سے کیا فائدہ، لیکن پھر بھی کچھ سوال آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے رات میں کرفیو نافذ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بھی رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک؟
انڈیا کے شہروں میں اس وقت کون گھروں سےباہر نکلتا ہے، دلی جیسے شہر کی سڑکیں بھی ویران ہو جاتی ہیں، بازار اور شاپنگ مال سب بند ہو چکے ہوتے ہیں۔ اور ویسے بھی نائٹ لائف تو انڈیا میں بس برائے نام ہی ہے تو پھر صرف رات میں کرفیو لگانے کا کیا پوائنٹ ہے، یہ بات اپنی سمجھ سے باہر ہے۔
اگر ڈر یہ ہے کہ نائٹ کلبز میں بھیڑ جمع ہوسکتی ہے تو صرف انہیں پر پابندی یا بندشیں کیوں نہ لگادی جائیں؟ یہ بھی اچھا ہی ہے کہ گاؤں دیہات میں ابھی رات کے کرفیو کا خیال کسی کو نہیں آیا ہے، وہاں تو عموماً دس بجے ویسے ہی آدھی رات ہو چکی ہوتی ہے۔
چلیے، چھوڑیے، ہوسکتا ہے کسی کو لگا ہو کہ کوروناوائرس چمگادڑوں سے پھیلنا شروع ہوا تھا اس لیے رات میں کرفیو لگا کر اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مشکل وقت میں انسان ہر طرح کے ٹوٹکے آزماتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اگر آپ کو سوال عجیب لگے تو ذرا دلی کی حکومت کے اس حکم کے بارے میں سوچیے کہ شہر کے چودہ سب سے مشہور پرائیویٹ ہسپتال صرف کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کریں گے۔
کئی سرکاری ہسپتالوں میں یہ فیصلہ پہلے ہی نافذ کیا جاچکا ہے۔ مانا کہ وبا دوبارہ تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن باقی مریض کہاں جائیں گے؟ کسی کی ڈائلسز ہونی ہے، کسی کا بائی پاس ہونا ہے، وہ لوگ جو کل تک ان ہسپتالوں میں زیر علاج تھے ان کے بارے میں کون سوچے گا، وہ کہاں نئے ڈاکٹر ڈھونڈتے پھریں گے؟
اور جو آج سے بیمار ہوں گے وہ کہاں جائیں گے؟ یہ ہی مسئلہ گزشتہ برس لاک ڈاؤن کے دوران اور اس کے بعد بھی سامنے آیا تھا لیکن یہ اعداد شمار کون رکھتا ہے کہ صحیح وقت پر صحیح علاج نہ مل پانے کی وجہ سے کتنے لوگوں کو نہیں بچایا جاسکا؟
چلیے، یہ ہی بڑی بات ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کا حساب رکھا جا رہا ہے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔

انڈیا کی کئی ریاستوں کو ویکسین کی کمی کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 ٹوئٹر پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کے ایک مردہ گھر میں درجنوں لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں، کچھ سٹریچرز پر اور باقی فرش پر۔
ٹی وی چینل احمدآباد کے ایک ہسپتال کی تصاویر بھی دکھا رہے ہیں جہاں داخل ہونے کے لیے مریضوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے اور انہیں ایمبولینسوں میں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ ایک سانحہ ہے اور لگتا یہ ہے کہ حالات بس اب خراب ہونا شروع ہی ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مغربی بنگال میں الیکشن ایسے جاری ہے جیسے وہاں کورونا وائرس کے بارے میں کسی کو خبر ہی نہ ہو۔ لاکھوں لوگوں کے جلسے ہو رہے ہیں اور بڑے سیاسی رہنما اپنی سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے بڑے جلوس نکال رہے ہیں۔
اگر لوگوں کے جمع ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو دلی میں کیوں شادیوں میں صرف 50 لوگ شرکت کرسکتے ہیں؟ اور جنازوں میں صرف 20؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ باقی الیکشن کے لیے صرف جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے؟
لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ انڈیا کے سیاسی تالاب میں اس وقت مغربی بنگال بہت بڑی مچھلی ہے، اس پر گرفت کمزور کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔اور کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بہت وقت پڑا الیکشن تو دو ڈھائی ہفتوں میں ختم ہو جائےگا۔

 کمبھ کا میلہ 12 سال بعد آتا ہے۔ یہ میلہ اس وقت شمالی شہر ہری دوار میں جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

الیکشن تو ہر پانچ سال میں آتے ہیں لیکن کمبھ کا میلہ 12 سال بعد آتا ہے۔ یہ میلہ اس وقت شمالی شہر ہری دوار میں جاری ہے جہاں پیر کے روز تیس لاکھ سے زائد عقیدت مندوں نے گنگا میں ڈبکی لگا کر اپنے گناہ دھو ڈالے۔
کورونا وائرس سے بھی نجات ملی کہ نہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن وہاں سے جو تصاویر آ رہی ہیں انہیں دیکھ کر روح فنا ہوتی ہے اور یہ سوال تو ذہن میں آتا ہی ہے کہ کیا ایسے حالات میں واقعی میلے کی اجازت دی جانی چاہیے تھی؟ لیکن حکمران اپنے فیصلے کس کسوٹی پر پرکھتے ہیں اس کا تھوڑا بہت آئڈیا تو آپ کو ہوگا ہی۔
ٹیکا لگانے کی پالیسی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ پورے ملک میں جب حالات ایک سے نہیں ہیں تو پالیسی یکساں کیوں ہے؟ جن علاقوں میں وبا زیادہ پھیل رہی ہے کیا وہاں لوگوں کو ان کی عمر کی پرواہ کیے بغیر ٹیکے نہیں لگائے جانے چاہییں؟
اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے۔ ممبئی دلی میں حالات زیادہ خراب ہیں، دو تین ہفتے بڑے شہروں پر فوکس کرنے میں کیا نقصان ہے؟ جہاں لیکیج زیادہ ہوتا ہے، مرمت وہیں پہلے کی جاتی ہے، یہ کون کہتا ہے کہ ہم تو پوری پائپ لائن کی مرمت کریں گے، آپ کا جب نمبر آئے گا تو آئے گا، تب تک صبر کیجیے۔
لیکن کچھ اچھی خبر بھی ہے۔ حکومت نے آخرکار ایک اور ٹیکے کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ اسے ہسپتالوں تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا یہ ابھی کہنا مشکل ہے لیکن روس کے سپوٹنک وی ٹیکے کی افادیت ان دونوں ٹیکوں سے زیادہ بتائی جاتی ہے جو فی الحال انڈیا میں دستیاب ہیں۔
حکومت کو شاید اب یہ بات سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہے کہ جب تک وہ اور ٹیکوں کی منظوری نہیں دیتی، سوا ارب لوگوں کو ٹیکا لگانے کا کام پورا کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔

انڈین ریاست مہاراشٹر میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

گزشتہ برس کے برعکس اس مرتبہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی ہے۔ اس لیے بس اس بھرم میں مت رہیے گا کہ ہمارا کورونا وائرس نے پھچلے سال ہی کیا بگاڑ لیا تھا جو اس مرتبہ۔۔۔
کیونکہ اس مرتبہ حالات ذرا بدلے ہوئے ہیں۔ وائرس کا مزاج بھی بدلا ہوا ہے، حکومتوں کے پاس بھی راستے محدود ہیں، معیشت کی حالت ایسی ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا لیکن علاقائی سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، ہو سکتا ہے کہ جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے مہاراشٹر میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جاچکا ہو۔
لیکن محفوظ رہنے کے لیے ایسا بہت کچھ ہے جو آپ خود بھی کرسکتےہیں، وہ ٹیکا لگوانا وہ ماسک پہننا، بھیڑ سے دور رہنا، تھوڑی تھوڑی دیر میں ہاتھ دھوتے رہنا۔ یہ سب معمولی سمجھداری کی باتیں ہے۔ ڈرل آپ کو معلوم ہی ہے۔ تو کام پر لگ جائیے کیونکہ خود کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری آپ کی اپنی بھی ہے۔

شیئر: