Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں چکن کا بحران: حقائق کیا ہیں؟ 

پاکستان میں 15 ہزار مرغی فارمز ہیں جو غذائی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں برائلر مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور اس کی قیمت 422 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔
پیر کو بلوچستان اور دور دراز علاقوں میں یہ ریٹ 500 روپے فی کلو کی حد بھی کراس کر چکا تھا۔ ایسے میں وزرا اس مہنگائی کی وجہ مافیا کو قرار دے رہے ہیں۔
پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ’جس طرح چینی اور آٹا مافیا کے خلاف حکومت نے کارروائی کی ہے بالکل اسی طرح اب پولٹری مافیا کے خلاف بھی کارروائی کا وقت آگیا ہے اور اس صنعت کو بھی اب ریگولیٹ کیا جائے گا۔‘
تو کیا چکن مہنگا ہونے کی وجہ واقعی کوئی مافیا ہے یا یہ صنعت کئی وجوہات کی بنا پر گرداب میں ہے؟
محمد وسیم کا تعلق پنجاب کے قصبہ شرق پور سے ہے اور وہ گذشتہ 15 سال سے پولٹری فارمنگ سے منسلک ہیں۔ رواں برس ان کا پولٹری کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اپریل میں 50 ہزار چوزہ ڈالا اور گیارہویں دن ایک بیماری کا حملہ ہوا جس کو ایک ہفتے میں کسی حد تک کنٹرول کرلیا۔ تاہم اس کے بعد پھر یکے بعد دیگرے دو حملے ہوئے۔ میرا کنڑولڈ شیڈ ہے اور یہ دو منزلہ ہے۔ اس بار گراؤنڈ فلور کا فلاک بھی اس بیماری کی زد میں آگیا جس میں بہت زیادہ تعداد میں یہ چوزے مرگئے۔‘
’آپ میری بات پر یقین نہیں کریں گے۔ 31 ویں دن صرف چھ ہزار برائلر مرغے بچے جو کہ چھ لاکھ روپے میں فروخت ہوئے۔ میں نے 40 لاکھ کا چوزہ ڈالا تھا اور 35 لاکھ کی فیڈ کھلائی اس طرح بیماری کی روک تھام کے لیے 20 لاکھ خرچ کیے۔ 95 لاکھ روپے کے عوض صرف چھ لاکھ روپے واپس آئے ہیں۔ اور اب میرے اندر سکت نہیں فوری طور پر دوبارہ کام شروع کرنے کی۔‘ 
برائلر گوشت کا کام کرنے والے کسان محمد وسیم ان دنوں شدید ذہنی کرب سے دوچار ہیں۔ ایسی کہانی صرف انہی کی نہیں اس سال پولٹری کی صنعت غیر متوقع طورپر بیماری کی زد میں آئی ہے جس کی وجہ سے چکن کی پیداوار شدید دباؤ میں ہے۔

پنجاب پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے مطابق ’بیماری کی وجہ سے رسد متاثر ہوچکی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب پولٹری فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک خرم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سینکڑوں کسان اس وقت شدید دباؤ میں ہیں کیونکہ بیماری نے بڑے پیمانے پر پرندوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی سینکڑوں کہانیاں ہیں کہ کسانوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔‘
’اگر آپ نے صحیح معنوں میں اس وقت چکن کی کم پیداوار کا تخمینہ لگانا ہے تو وہ نئے چوزے یا سیڈ کی فروخت سے لگا سکتے ہیں۔ ہر ماہ پاکستان میں اوسطاً ایک کروڑ 40 لاکھ چوزہ فروخت ہوتا ہے۔ چونکہ برائلر 31 سے 40 دنوں میں تیار ہوجاتا ہے اس لیے اس کا حساب مہینے سے مہینے ہی چلتا ہے۔ اس وقت چوزے کی فروخت 98 لاکھ پر آچکی ہے۔ یعنی لوگ اس کاروبار سے باہر ہو رہے ہیں۔ اس لیے بھی پیداوار میں شدید کمی ہوئی ہے، اور طلب رسد کا نظام متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔ اور اس کے جلد ٹھیک ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔‘ 

قیمتوں میں اضافے کے عوامل 

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں 15 ہزار مرغی فارم ہیں جو غذائی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سال غیر معمولی بیماری کے حملے ہی چکن کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے؟
پنجاب پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر طارق جاوید سمجھتے ہیں کہ ’یہ صرف ایک وجہ نہیں ہے۔ چار ایسے عوامل ہیں جو اس وقت پولٹری کی قیمتوں کا تعین کر رہے ہیں۔‘
’پہلا فیکٹر تو طلب رسد ہے۔ یعنی پیداوار کم ہے تو لامحالہ اوپن مارکیٹ میں بیٹھے ٹریڈرز ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے زیادہ پیسے خرچ کر کے چکن اٹھا رہے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے رسد متاثر ہوچکی ہے۔ رانی کھیت کی نئی سٹرین اس بار آئی ہے جس کی وجہ سے اوسطاً شرح اموات 50 فیصد تک چلی گئی ہے۔ تیس ہزار پرندے ڈالنے والا کسان اس میں سے 15 ہزار بیچ پا رہا ہے باقی مر رہے ہیں۔ دوسرا فیکٹر کورونا کی پہلی لہر کے دوران چکن 70 روپے کلو تک آگیا جس سے بڑے پیمانے پر کسان اس کاروبار سے ہی باہر ہو گئے۔ آخری اور تیسرا فیکٹر ہے برائلر کا بیج جو امریکہ، ہالینڈ اور فرانس سے درآمد کیا جاتا ہے فلائٹس متاثر ہونے سے اس کی امپورٹ بھی بہت کم ہوئی ہے۔‘ 

کورونا کی پہلی لہر کے دوران چکن 70 روپے کلو تک آ گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ چوتھا اور آخری فیکٹر چکن کی فیڈ کا مہنگا ہونا ہے۔ مکئی 900 روپے سے 2200 تک چلی گئی ہے۔ سویابین درآمد ہوتی ہے وہ مہنگی ہوگئی ہے۔ تو فیڈ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔ اب کسان جیب سے تو نہیں بھرے گا نا.‘ 
طارق جاوید سمجھتے ہیں کہ ان چار عوامل نے مل کر یہ صورت حال پیدا کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اوپن مارکیٹ ہے 31 دن میں جو برائلر تیار ہوتا ہے اسے کسان نے ہر صورت نکالنا ہے تو ایسے میں نہ تو یہ سٹاک ہوسکتا ہے نہ ہی اس کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھائی جا سکتی ہے۔
’اس لیے یہ بات کرنا کہ کوئی مافیا حرکت میں آیا ہوا ہے یہ بالکل عجیب سی بات ہے۔ پولٹری کی مارکیٹ کھلی کتاب کی طرح ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ فورسز ریٹ طے کرتی ہیں۔ یہ تو اکانومی کا سب سے سادہ فارمولہ ہے کہ سستی چیز تب ہو گی جب رسد طلب سے زیادہ ہوگی۔ اگر طلب زیادہ ہے اور رسد شدید متاثر ہو چکی ہے۔ تو کیا وہ چیز سستی ملے گی؟ ابھی بھی اگر مزید انویسٹر اس کاروبار میں آتا ہے اور فیڈ سستی ہوتی ہے اور بیماری نیچے جاتی ہے تو بھی جلدی قیمتیں نیچے آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان کے اثرات آتے بھی اچھا خاصا وقت لگے گا۔‘  

شیئر: