Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوشاب ضمنی انتخابات ’برائلر تین سو 80 روپے، پیپلزپارٹی کے ووٹ 235‘

پی پی 84 کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی کامیابی حاصل کی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں آج کل ضمنی انتخابات کا زمانہ ہے اور بدھ کو پنجاب کے ضلع خوشاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اپوزیشن جماعت ن لیگ نے جیت لیے ہیں۔
لیکن ان انتخابات میں ایک قابل ذکر بات سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کو اس حلقے میں پڑنے والے ووٹ ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری نتیجے کے مطابق پیپلزپارٹی نے اس حلقے سے 235 ووٹ حاصل کیے جبکہ جیتنے والی مسلم لیگ ن نے 73 ہزار سے زائد جبکہ ملک کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے 62  ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ 
پی پی 84 کی اسی نشست پر2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 12 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ اسی نشست پر 2018 کے انتخابات میں پی پی نے 1365 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اور اب ضمنی انتخاب میں یہی ووٹ 235 رہ گئے ہیں۔ 
پیپلز پارٹی کے انتہائی کم ووٹ نکلنے پر سوشل میڈیا صارفین کے دلچسپ تبصروں نے جیتنے والی پارٹی سے زیادہ جگہ بنائی۔
جبکہ مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی کا پنجاب میں دوبارہ جگہ بنانا ابھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی 30 نومبر 1967 کو جب وجود میں آئی تو اس کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کی بنیاد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رکھی تھی۔ اور کسی دور میں اس جماعت کا طوطی پنجاب میں بھی اتنا ہی بولتا تھا جتنا کہ سندھ میں۔ 
لیکن پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ میں اب صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ پیپلزپارٹی کے چنیوٹ کے حلقہ پی پی 84 کے کل 229 پولنگ سٹیشنز سے 235 ووٹ حاصل کیے ہیں۔
یعنی ہر پولنگ سٹیشن سے تقریباً ایک ایک ووٹ پڑا ہے۔ کل ایک لاکھ 55 ہزار ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب تقریباً 53 فیصد رہا جو کسی بھی انتخابی عمل میں ایک صحت مندانہ اعداوشمار ہیں۔ 
جیسے ہی نتائج آنا شروع ہوئے تو پیپلز پارٹی کے کم ترین ووٹوں نے سوشل میڈیا کی توجہ فوری حاصل کر لی۔ 
پارٹی کے پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے ایک ٹی وی چینل پر جب شکوہ کیا کہ خوشاب کے نتائج تاخیر سے کیوں آرہے ہیں؟
تو ایک صارف منصور نے اس کا فوری جواب دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا ’پیپلزپارٹی کی ڈبل سنچری کروانے کے چکر میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘

اس وقت تک آنے والے نتائج میں پیپلزپارٹی نے ابھی دوسو کا ہندسہ بھی عبور نہیں کیا تھا۔ 
کچھ اور صارفین نے بھی اتنے کم ووٹ لینے پر اپنے پیپلزپارٹی کو کھٹے میٹھے جملوں سے نوازا۔
ایک صارف نے لکھا ’ایک بھائی نے کیلکولیشن کرکے بتایا ہے کہ پیپلزپارٹی کو خوشاب میں اوسطاً پونا ووٹ پڑا ہے۔‘

آج کل چونکہ پاکستان میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور اشیائے خودرونوش کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں تو ایک صارف اطہر سلیم نے پیپلزپارٹی کے کل حاصل ووٹوں کو مرغی کے گوشت کی قیمت سے تشبیہ دے ڈالی ’برائلر 380 روپے کلو، پیپلزپارٹی کے 235 ووٹ۔‘
کچھ صارفین نے پیپلزپارٹی کے حق میں بھی لکھا اور خوشاب کے الیکشن کو تحریک انصاف اور ن لیگ کا مقابلہ قرار دیا۔
صارف احسن رضوی نے 2002 کے انتخابات کا نتیجہ لکھتے ہوئے کہا کہ ’خوشاب کا ووٹر 2002 میں ن لیگ سے اتنا دور تھا جتنا آج ان کا قائد لاہور سے دور لندن میں ہے۔‘
ان کے ٹویٹ کے مطابق 2002 میں مسلم لیگ ن نے اس حلقے سے دوہزار ووٹ لیے تھے جبکہ وارث کلو اس وقت آزاد حیثیت میں 41 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ حلقہ پی پی 84 کی نشست مسلم لیگ کے وارث کلو ایم پی اے کی وفات کے باعث خالی ہوئی تھی اور اب کی جگہ ان کے بیٹے معظم شیر کلو ضمنی انتخابات میں امیدوار تھے۔ 

شیئر: