Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرچہ ہے دل کُشا بہت حُسنِ فرنگ کی بہار

قانون دان اور ماہر زبان محمد دین کے مطابق فارسی میں ’تازی‘ کے معنی ’اجنبی‘ کے ہیں (فوٹو پکسابے)
گرچہ ہے دل کُشا بہت حُسنِ فرنگ کی بہار 
طائرکِ بلند بال، دانہ و دام سے گزر 
درسِ خودی دیتا یہ شعرعلامہ اقبال کا ہے اور شعر میں ’دل کُشا‘ کی ترکیب اس کی وجہ انتخاب ہے کہ گزشتہ نشست کی نسبت سے لفظ ’کُشا، عجمی اور تازی‘ کی گرہ کُشائی ابھی باقی ہے۔ 
لفظ کُشا، کُشاد، کُشادہ اور ’کُشادگی‘ فارسی مصدر ’کُشادن‘ سے مشتق ہیں، اور ’کُشادن‘ کے معنی کھولنا اور رہا کرنا ہیں۔ پھر مجازاً کُشاد کے معنی میں بزرگ و فراخ کے ساتھ ساتھ فتح و ظفر اور خوشی و مسرت میں داخل ہیں۔ کُشاد لفظ ’کُشادہ‘ کی تخفیف ہے، فارسی میں’رہا کردن تیر از کمان‘ یعنی کمان سے تیر چھوڑنا بھی ’کُشاد‘ کہلاتا ہے۔ 
فارسی کی رعایت سے اردو میں لفظ ’کُشا، کُشائی، کُشاد، کُشادہ‘ سے بننے والی بہت سی خوبصورت تراکیب رائج ہیں مثلاً کُشا بطور لاحقہ ’لب کُشا، چشم کُشا اور مشکل کُشا‘ کاحصہ ہے تو ’کُشائی‘ کو ’روزہ کُشائی، گرہ کُشائی اور کشور کُشائی‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اگر ’کُشاد‘ سے ’کُشادِ دل، کُشادِ طَبَع اور کُشادِ کار‘ کی تراکیب ہیں تو خوش طبع کو ’کُشادہ ابرو‘، خوش دل کو ’کُشادہ جبیں‘ اور سخی کو ’کُشادہ دست‘ کہا جاتا ہے۔
رہی بات ’کُشادگی‘ کی تو اسے جعفر عباس کے شعر میں ملاحظہ کریں:
نظر میں، ذہن میں، دل میں کُشادگی لاؤ 
ہَوا کے رُخ کا تقاضا ہے بادبانوں پر
اب اس ضمن میں آخری بات اور وہ یہ کہ اردو میں ’کُشا، کُشاد اور کُشادہ‘ لکھے جا نے والے الفاظ  جدید فارسی میں ’گاف‘ سے ادا کیے جانے کے سبب ’گُشا، گُشاد اور گُشادہ‘ ہوگئے ہیں۔
یوں جو ترکیب ہمارے یہاں ’بست و کُشاد‘ ہے وہ فارسی میں ’بست و گُشاد‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے ان الفاظ کو اردو کلام میں ’کاف‘ کے ساتھ اور فارسی کلام میں ’گاف‘ کے ساتھ برتا ہے۔

فارسی میں کمان سے تیر چھوڑنا بھی ’کُشاد‘ کہلاتا ہے (فوٹو: پکسابے)

اسے ان کے ایک مصرع ’از گُشادِ او گُشادِ آسیا‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یوں ’کُشاد‘ اردو میں اور ’گُشاد‘ فارسی میں اپنی اپنی جگہ درست قرار پاتے ہیں۔  
بات صرف کُشاد و گُشاد تک محدود نہیں کہ حرف کاف اور گاف قرب المخرج ہونے کی وجہ سے اکثر ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں۔ اسے آپ لفظ ’نکہت‘ میں بھی دیکھ سکتے ہیں جسے ہمارے ہاں غلط طور پر ’نگہت‘ بولا اور لکھا جاتا ہے۔
کاف و گاف کی اس تبدیلی کی مثال لفظ شگفتہ اور افگند بھی ہیں، جو جدید فارسی میں ’افکند اور شکفتہ‘ لکھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہندی ’گاؤ‘ کا انگریزی میں ’cow/ کاؤ‘ ہوجانا بھی سامنے کی بات ہے۔
اب لفظ ’عجمی‘ کی بات ہوجائے، جو عربی لفظ ہے۔ عربی زبان میں ’عجمی‘ اور ’اعجمی‘ دو الگ الفاظ ہیں، اور دونوں کا تعلق ’اَلعُجمَۃُ‘ سے ہے، جس کے معنی ابہام اور اخفا کے ہیں۔
عجمی کا ’العجم‘ سے تعلق ہے جو غیرعرب کو کہتے ہیں جب کہ ’اعجمی‘ کو ’الاعجم‘ سے نسبت ہے جو ہر اُس شخص کو کہتے ہیں جس کی زبان فصیح نہ ہو۔ یوں ’اعجمی‘ کی تعریف میں وہ عرب بھی داخل ہیں جنہیں زبان و بیان پر قابل ذکر دسترس نہ ہو۔ 

حرف کاف اور گاف قرب المخرج ہونے کی وجہ سے اکثر ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں,  ہندی ’گاؤ‘ کا انگریزی میں ’cow/ کاؤ‘ ہوجانا بھی یہی بات ہے (فوٹو:پکسابے)

عربی میں گونگے کو مجازاً ’اعجم‘ کہا گیا کہ بذریعہ زبان اپنی بات کے ابلاغ کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ پھر گونگے کی رعایت سے اس کے مفہوم میں ’خاموشی‘ داخل ہوگئی جو اکثر ویران و بے آباد مقام کا خاصا ہوتا ہے۔
 یوں ’استعجمت الدار‘ کی ترکیب پیدا ہوئی، جس کے معنی ہیں ’گھرسُونا ہوگیا اور جواب دینے والا کوئی نہ رہا۔‘ اور اس کی ضد کی طور پر ’بِلَادٍ تَنطِقُ‘ کی ترکیب بنی جس کے لفظی معنی ’بولتے شہر‘ اور مجازی معنی ’آباد و بارونق شہر‘ کے ہیں۔ 
عربی ہی میں حروف مقطعات کو ’حروف معجمہ‘ بھی کہا جاتا ہے کہ کوئی متعین معنی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اعجمی یعنی گونگے ہوتے ہیں۔
یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب غیر عربی دان اپنی اپنی زبان میں بات کہنے اور سمجھانے کا مکمل سلیقہ رکھتے ہیں، تو انہیں ’اعجمی‘ یعنی ’گونگا‘ کیوں کہا گیا ہے؟
عرض ہے کہ انہیں ’اعجمی‘ مجازی معنی میں کہا گیا ہے اور وجہ یہ ہے کہ جو زور کلام اور وسعت بیان عربی زبان میں ہے دوسری زبانیں اُس سے محروم ہیں۔ 
عربوں کی عادات و اطوار اور ثقافتی تاریخ کے حوالے سے مشہور کتاب ’بلوغ الارب فی معرفۃ  احوال العرب‘ کے مؤلف محمود شکری آلوسی کے مطابق عربی میں ’خوف‘ کے لیے چار ہزار الفاظ آئے ہیں۔ یوں ہر لفظ خوف کی ایک مختلف صورت کا ترجمان ہے۔
یعنی لفظ کا استعمال بتا دیتا ہے کہ خوف دشمن کے حملے کا ہے یا کسی درندے کے آدبوچنے کا، بھوک سے مر جانے کا ڈر ہے یا پیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دے دینے کا دھڑکا۔ اونچائی سے گرجانے کا اندیشہ ہے یا ڈوب مرنے کا خدشہ

عربی میں گونگے کو مجازاً ’اعجم‘ کہا گیا کہ بذریعہ زبان اپنی بات کے ابلاغ کی قدرت نہیں رکھتا ہے (فوٹو:شٹرسٹاک)

ظاہر ہے کہ مترادفات کی یہ بہار اور ذخیرہ الفاظ کا بحر زخار دوسری زبانوں میں ناپید ہے۔ اس لیے عرب اپنے زبان دانی کے مقابلے میں اوروں کو ’اعجم‘ کہتے ہیں۔ اب ’اعجمی‘ کی رعایت سے علامہ اقبال کا شعر ملاحظہ کریں پھر آگے بڑھتے ہیں:
حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج 
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی 
اب لفظ ’تازی‘ کا ذکر ہوجائے جو فارسی میں ’عرب، عربی اور عربی زبان‘ کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے اسی لیے عربی گھوڑے کو ’اسپ تازی‘ بھی کہا جاتا ہے۔  
قانون دان اور ماہر زبان محمد دین کے مطابق فارسی میں ’تازی‘ کے معنی ’اجنبی‘ کے ہیں۔ اہل عجم یہ لفظ اہل عرب کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
 بعض دیگر ماہرین کے مطابق تازی کی اصطلاح اول اول عرب کے ’قبیلہ طی‘ کے لیے مخصوص تھی جس کے باشندے ’طائی‘ کہلاتے ہیں، یہی طائی فارسی میں تازی ہوگیا۔
بعد میں اس لفظ میں وسعت پیدا ہوئی اور کُل عرب اس کے معنی میں داخل ہوگئے۔ اس لفظ کی کچھ اور بھی جہتیں ہیں جن کا تذکرہ کسی دوسری نشست میں کریں گے۔ 

شیئر: