Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خوبصورت دوشیزہ سے گفتگو غزل کیسے کہلائی؟

خوبرو خواتین سے گفتگو کی رعایت سے فارسی و اردو نظم کی ایک مقبول صنف کا نام ’غزل‘ قرار پایا۔ (فوٹو: پکسابے)
نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں 
کوئی دل کُشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی 
شعر علامہ اقبال کا ہے جس کا انتخاب اس میں وارد الفاظ ’غزل، خبر، کُشا، عجمی اور تازی‘ کی گرہ کشائی کے لیے کیا گیا ہے۔ 
عربی زبان کے بڑے عالم علامہ راغب اصفہانی کے مطابق عربی میں ’غَزَال‘ ہرنوٹے (ہرن کا بچہ) کو کہتے ہیں۔ پھر اس ’غزال‘ سے کنایۃً  ’غزل‘ اور ’غزالہ‘ کا مفہوم پیدا ہوا، جس کے معنی ہرنوٹے جیسی خوبرو دوشیزہ سے راز و نیاز کی باتیں کرنا ہیں۔ 
فارسی کی رعایت سے اردو میں ہرن اور ہرنوٹا دونوں ہی ’غزال‘ کی تعریف میں داخل ہیں اور بہت سی دل نشین تراکیب کا حصہ ہیں۔ انہیں’غزال چشم، غزالِ حرم، غزالِ رعنا، غزالِ خُتن یا غزالِ تتار‘ وغیرہ کی سی تراکیب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
غزال کی جمع ’غزالان‘ ہے جسے آپ غیر معروف شاعر ’رام نرائن موزوں‘ کے معروف ترین شعر میں دیکھ سکتے ہیں: 
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی 
دِوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری 
خوبرو خواتین سے گفتگو کی رعایت سے فارسی و اردو نظم کی ایک مقبول صنف کا نام ’غزل‘ قرار پایا۔ 
 عام طور پر ’غزل‘ کا ہر شعر جداگانہ مضمون کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا پہلا شعر ’مطلع‘ کہلاتا ہے، چوں کہ غزل اس شعر سے ’طلوع‘ ہوتی ہے اس لیے اسے ’مطلع‘ کہتے ہیں۔
اس کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ تاہم اگر اس کے بعد والے شعر میں بھی دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوں تو اس شعر کو ’حُسن مطلع‘ کہتے ہیں، جب کہ باقی اشعار کے صرف مصرع ثانی میں ردیف و قافیہ کی پابندی کی جاتی ہے۔

فارسی کی رعایت سے اردو میں ہرن اور ہرنوٹا دونوں ہی ’غزال‘ کی تعریف میں داخل ہیں اور بہت سی دل نشین تراکیب کا حصہ ہیں (فوٹو: پکسابے)

غزل کے سب سے عمدہ شعر کو ’بیت الغزل‘ یا ’شاہ بیت‘ کہا جاتا ہے۔ چوں کہ غزل کے آخری شعر پر یہ سلسلہ 'منقطع‘ ہوجاتا ہے اس لیے آخری شعر کو ’مقطع‘ کہتے ہیں۔ جی وہی ’مقطع‘ جس کے متعلق اسد اللہ خاں غالب کہہ گئے ہیں: 
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات 
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے 
کسی بھی مخصوص بحر کی پابندی سے آزاد ’غزل‘ ایک مدت تک حُسن و عشق، وصال و فراق، شراب و شباب، یاس و حرماں اور تصوّف و معرفت وغیرہ کے مضامین تک محدود تھی مگر گزرتے وقت نے اس کے دامن کو کشادہ تر کر دیا۔
یوں مذہبی، سماجی، معاشی اور سیاسی موضوعات نے بھی غزل میں راہ پائی۔ غزل کی اسی اہمیت کے پیش نظر جاں نثاراختر کہہ گئے ہیں: 
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے، غزل کا فن کیا 
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے 
اب کچھ ذکر لفظ ’خبر‘ کا ہوجائے کہ مواصلاتی ترقی نے اس کی اہمیت دو چند کردی ہے۔ ’خبر‘ عربی الاصل لفظ ہے، جس کی جمع ’اخبار‘ ہے تاہم اردو میں ’اخبار‘ بمعنی ’روزنامہ‘ واحد استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع ’اخبارات‘ بنالی گئی ہے جو عربی میں اپنا وجود تو نہیں رکھتی مگر اردو زبان کی حد تک درست ہے۔ 

’خبر‘ عربی الاصل لفظ ہے، جس کی جمع ’اخبار‘ ہے تاہم اردو میں ’اخبار‘ بمعنی ’روزنامہ‘ واحد استعمال ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عربی میں ’خَبرُ‘ کا ہم ریشہ ایک لفظ حرف ’خ‘ کے پیش کے ساتھ ’خُبرَ‘ ہے،جو کسی معاملے کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولاجاتا ہے، اورغالباً یہیں سے اس لفظ کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔ 
عربی کی طرح اردو میں بھی ’خبر‘ کا استعمال اور اطلاق وسیع تر معنی میں کیا جاتا ہے، یوں اس  کے لفظی، اصلاحی و مجازی معنی اورمترادفات میں ’وحی، حدیث، حال اَحوال ، خیریت، آگاہی، واقفیت، ہوش، اوسان، سُدھ بُدھ، مزاج پُرسی، عیادت،اطلاع ،پیغام ،اچھی خبری، بری خبر، منحوس خبر، نِشان، پتا اور سراغ ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ 
خبر دینے والا ’مُخبر‘ کہلاتا ہے، جو ’جاسوس‘ کے مترادف کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو میں ’مخبر‘ سے لفظ ’مخبری‘ وضع کرلیا گیا ہے جو جاسوسی اور خفیہ نویسی کے معنی میں میں برتا جاتا ہے۔
اردو شعر و ادب میں ’مخبر و مخبری‘ کے الفاظ عام طور پر منفی معنی میں برتے جاتے ہیں۔ درجنوں اشعار اس بات کے ثبوت میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ سرِدست "ازہر درانی" کا شعر ملاحظہ کریں جس کا پہلا مصرع ضرب المثل کی صورت اختیار کرگیا ہے: 
شریکِ جرم  نہ ہوتے  تو مخبری  کرتے​ 
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی​ 

اگر ’جاسوس‘ بری خبر لانے والا ہے تو پھر خیر و بھلائی کی خبر لانے والا کیا کہلاتا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

یوں تو اردو میں مخبر و جاسوس مترادف الفاظ ہیں مگر عربی میں جاسوس ’بری اطلاع لانے والا‘ کو کہتے ہیں۔ جاسوس لفظ ’اَلجَسُّ‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی رگ  چھونے اور نبض دیکھ کر بیماری یا تن درستی معلوم کرنے کے ہیں
اس رعایت سے ’جَسُّ‘ کے مفہوم میں اندورنی حالت معلوم کرنا شامل ہے۔ پھر اسی نسبت سے کسی کے نجی معاملات کی ٹوہ لینا ’تَجَسُّس‘ اور اور ٹوہ لینے والا ’جاسوس‘ کہلاتا ہے۔ چوں کہ کسی کے ذاتی معاملات کی کھود کرید اچھی بات نہیں اسی لیے ’وَلاَ تَجَسَّسُوا‘ کا حکم دے کر لوگوں کے معاملات کی ٹوہ لیتے پھرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ 
اردو میں ’تجسس‘ کے معنی و اطلاق میں عربی کی کسی شدت نہیں پائی جاتی اسی لیے اس کے مفہوم میں تحقیق و جستجو بھی شامل ہیں۔ دیکھیں ’خاطر غزنوی‘ کیا کہہ رہے ہیں: 
اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا 
جو کبھی اپنا نہ تھا وہ غیر کا کیسے ہوا 
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ’جاسوس‘ بری خبر لانے والا ہے تو پھر خیر و بھلائی کی خبر لانے والا کیا کہلاتا ہے؟ عرض ہے کہ عربی میں ’جاسوس‘ کا متضاد لفظ ’ناموس‘ آیا ہے۔ یہ ایک کثیر المعنی لفظ ہے، صرف اردو زبان ہی میں اسے کئی درجن معنی میں برتا جاتا ہے۔ ’ناموس‘ کے ان بہت سے معنی میں سے ایک ’خیر کی خبر لانے والا‘ بھی ہے۔     
رہ گئی بات لفظ  ’کُشا، عجمی اور تازی‘ کی گرہ کُشائی کی تو ان کا ذکر اگلی نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ ’سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے۔‘ 

شیئر: