Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی مسلمان خاتون سیاست دان پر فائر بم حملہ، سیاسی رہنماؤں کی مذمت

عروج شاہ مئی میں اولڈہم کونسل کی لیڈر منتخب ہوئی ہیں (فوٹو: اولڈہم کونسل)
برطانوی پولیس شمالی انگلینڈ میں لیبر پارٹی کی اولڈہم کونسل کی رہنما کی گاڑی پر کیے گئے فائر بم حملے کی تحقیق کر رہی ہے۔
شمالی لوکل اتھارٹی کی سربراہی کرنے والی پہلی مسلمان خاتون عروج شاہ کی گاڑی کو منگل کے روز ڈیڑھ بجے آگ لگا دی گئی تھی۔
حملے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس سے قریبی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
گریٹر مانچسٹر ٹاؤن میں عروج شاہ کے سیاسی ساتھیوں اور اہم شخصیات نے حملے کی مذمت کی ہے۔
اولڈہم ویسٹ اور روئٹن سے لیبر رکن پارلیمنٹ جم مکماہن کا کہنا ہے کہ ’میں عروج شاہ سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہوں جنہیں بزدلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔‘
ان کے مطابق ’ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کے لیے قانون کی پوری قوت استعمال ہوتی دکھائی دینی چاہیے۔ چونکہ یہ جاری تفتیش ہے اس لیے اس پر عوامی سطح پر بہت زیادہ بات نہیں کی جا سکتی البتہ میری ہمدردی عروج اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔‘
کونسل میں لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما ہورڈ سکائز نے اپنے ردعمل میں اسے ’خوفزدہ کرنے والا حملہ‘ قرار دیا۔
ان کے مطابق ’ایسے واقعات کو جاری رہنے نہیں دیا جا سکتا، ہمیں نہ صرف ان مجرمانہ حملوں کو روکنا چاہیے بلکہ حالیہ برسوں میں برطانیہ اور اولڈہم کی سیاست میں گالم گلوچ کے رجحان کو بھی روکنا چاہیے۔‘
’ہر ایک سے احترام اور دیانت کا برتاؤ کیا جانا چاہیے، گالم گلوچ کی سیاست کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘

سیاسی حلقوں نے عروج شاہ کی گاڑی جلائے جانے کے واقعے کی مذمت کی ہے (فوٹو: اولڈہم کونسل)

عروج شاہ گولڈوک میں پلی بڑھی اور یہی مقیم ہیں، اس علاقے کو انگلینڈ میں سب سے زیادہ نظرانداز ہونے والے علاقوں میں گنا جاتا ہے۔
ان کے والدین 1960 کی دہائی کے اختتام پر پاکستان سے ہجرت کر کے برطانیہ پہنچے تھے جہاں وہ اولڈہم ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازم تھے۔
مئی میں کونسل لیڈر منتخب ہونے والی عروج شاہ نے اس مقام تک پہنچنے کے دوران درپیش مشکلات بشمول نسل پرستی اور صنفی تعصب کا ذکر کیا، یہ سب اس وقت ہوا جب وہ مقامی مسلمان آبادی کے روایت پسندوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی کر رہی تھیں۔
مئی میں کی گئی گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے اس کی اصلاح اپنی اہم ذمہ داری محسوس ہوتی ہے تاکہ کوئی ایشیائی خاتون مجھے یا میرے حالات کو دیکھے تو اسے لگے کہ وہ بھی ایسا کر سکتی ہے۔‘
گریٹر مانچسٹر کی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ وہ واقعے کی تحقیق کر رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق ’یہ بات طے ہو چکی کہ گاڑی کو جان بوجھ کر آگ لگائی گئی ہے۔‘

شیئر: